• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر وقوع پذیر ہونے والے ایک خوفناک سانحے نے بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی ایک عجیب کرب میں مبتلا کردیا۔ موٹروے پر جو کچھ ہوا، ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام کے لئے شرم کا مقام ہے۔ کون سوچ سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو ایک ماں کا اُسکے بچوں کے سامنے ریپ کر سکتے ہیں مگر کچھ حلقوں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور سوشل میڈیا پر ہونے والے غیرسنجیدہ کمنٹس نے اس کرب اور افسوس کو اور بھی زیادہ کر دیا۔

سی سی پی او لاہور، عمر شیخ کا اِس سانحے کے حوالے سے جو پہلا متنازع بیان سامنے آیا تھا، جس میں وہ اُس عورت کے رات کو اکیلے سفر کرنے پر سوالیہ نشان اٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ جی ٹی روڈ سے کیوں سفر نہیں کر رہی تھیں یعنی بجائے یہ کہ وہ اس بات پر حیران ہوں کہ اُن کے شہر میں ایسا کیوں ہوا، اُن کو زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ ایک خاتون رات کو ایک بجے اکیلے کیوں سفر کر رہی تھی اور یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اُن کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے، وہ ان کے رات کو موٹروے پر اکیلے سفر کرنے کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو ایسے بیان پر افسر کی کب کی چھٹی ہو چکی ہوتی لیکن ہمیں تو صفائیاں ملتی رہیں کہ انہوں نے کون سا قانون توڑا ہے، شکر ہے آئی جی پنجاب نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا ۔گزشتہ روز سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اپنے اُس متنازع بیان پر معافی بھی مانگ لی ہے۔

حضرت عمر ؓنے فرمایا تھا کہ اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں ایک جوان عورت زیور پہن کر یمن سے عجم، رات کے اندھیرے میں کسی بھی ڈر اور خوف کے بغیر جا سکے۔ یہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے اگر ہم اپنے معاشرے میں عورت کے ساتھ زیادتی ہونے سے زیادہ اس کے رات کو ایک بجے باہر نکلنے پر حیران ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک ایسا معاشرہ مانتے اور سمجھتے ہیں جہاں عورت سے زیادتی عام بات ہے لیکن عورت کا رات کو گھر سے باہر نکلنا نہیں۔

یہ اُس کلچر کا حصہ ہے جو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ کئی مغربی ممالک میں بھی عورتوں کے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کہیں نہ کہیں قصور وار اُنہیں ہی ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے کپڑے ایسے پہنے تھے، وہ رات کو اکیلی نکلی تھی، اس نے اس سے بات کیوں کی وغیرہ وغیرہ۔ جن بیچاری خواتین کی ذاتی وڈیوز یا تصویریں بھی لیک ہو جاتی ہیں یا ان کے پرانے بیچے ہوئے موبائل سے نکال لی جاتی ہیں تو یہ نہیں کہا جاتا کہ ان کو لیک کرنے والا کتنا برا انسان ہے بلکہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس نے ایسی تصاویر لی ہی کیوں تھیں؟ موبائل کا ڈیٹا صحیح طرح سے نکالا کیوں نہیں تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔

مائیں اور معاشرہ تو اپنی بیٹیوں کو سو دفعہ تاکید کرتا ہے کہ احتیاط کرو، بچ کے رہو، معاشرہ بہت برا ہے لیکن اگر یہ مائیں اپنے بیٹوں کو بھی اتنی ہی تاکید کریں کہ عورتوں کی عزت کرو، اُن کو ہاتھ نہ لگائو، ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ کرو تو شاید آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔یہ صرف ایک کیس نہیں ہے۔ صرف پنجاب میں سال 2019میں  3881زیادتی کے کیس، 1359بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے، 1758عورتوں پر تشدد کے اور 12600اغوا کے رجسٹرڈ ہوئے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کتنے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے اور ہمارے معاشرے کے وِکٹم بلیمنگ اور منفی رویے کی وجہ سے بہت سی خواتین چپ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

یہ کیس میڈیا میں ہائی لائٹ ہو گیا، اس پر شور مچ گیا، چیف منسٹر نے خود نگرانی بھی کی، جیو فینسنگ اور موبائل ٹریسنگ کا استعمال کرکے ملزمان کا پتا بھی چل گیااورتادمِ تحریر اُن میں سے ایک کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاچکی ہے۔اِس کیس کو حل کرنے کیلئے ڈی این اے بھی ہوا، موبائل ٹریسنگ بھی ہوئی اور وہ سب وسائل استعمال کئے گئے جو پاکستان کے ننانوے فیصد کیسز میں استعمال نہیں ہوتے۔ اب اس ایک کیس کے مجرموں کو پکڑ کر مبارکباد بھی دی جارہی ہے اور اپنی کامیابی کے گن بھی گائے جارہے ہیں لیکن جس طرح زینب کے ساتھ ہونے والے ہولناک واقعے کے بعد کوئی ٹھوس اقدام نہیں لئے گئے ، اِس کیس کے بعد ایسی لا پرواہی نہیں برتی جانی چاہئے۔ورنہ لوگ یہ کیس بھی بھول جائیں گے، میڈیا بھی بھول جائے گا اور کئی مظلوم اور بیچارے اسی طرح ظلم اور بربریت برداشت کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔

اس وقت ڈومور کی ضرورت ہے۔ اس واقعے کو لے کر پولیس کی ٹریننگ سے لے کر اس طرح کے جنسی تشدد کرنے والوں کو پکڑنے کے لئے وسائل کی دستیابی اور قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ صرف چند دن پہلے تک ہی جن خواتین کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا تھا، پہلے چیک کیا جاتا تھا کہ خواتین کنواری ہے یا نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے عوامی فائدے کے کیسز کی سماعت کے دوران اس شرط کو ختم کیا، اس شرط کی وجہ سے بہت سی خواتین بالخصوص شادی شدہ خواتین اپنے اوپر تشدد کرنے والوں پر کیس نہیں بنا سکیں، اگر ہم یہ سوچنے کے ساتھ کہ ہم نے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو کیسے محفوظ رکھنا ہے، یہ بھی سوچیں کہ معاشرے کو ان کے لئے کیسے محفوظ بنانا ہے تو شاید معاشرہ بدل جائے۔ یہ معاملہ ایک کیس کا نہیں ہے بلکہ کروڑوں خواتین کا ہے، جو اس ملک کی اُتنی ہی شہری ہیں جتنا اُن کے مرد۔ جنسی تشدد باقی تمام جرائم سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے ساتھ اُس کی سب سے ذاتی سطح پر جا کر ظلم کیا جاتا ہے۔ ڈو مور! ڈو مور! ڈو مور!

تازہ ترین