• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چمکتی دھوپ میں لہلہاتے سنہری خوشوں کے ساتھ گندم کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے اور کچھ علاقوں میں اس کی کٹائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ یہ کٹائی انشاء اللہ گیارہ مئی کے عام انتخابات سے پہلے مکمل ہو چکی ہو گی۔ خوراک و زراعت منصوبہ بندی کمیشن پاکستان (FAPCP) کے سربراہ ڈاکٹر عامر ارشاد کی رپورٹ ہے کہ گندم کی موجودہ فصل گزشتہ سال کی فصل سے بارہ فیصد زیادہ رقبے پر کاشت کی گئی ہے اور پیداوار بھی کم از کم ساڑھے بارہ فیصد سے زیادہ ہو گی بلکہ سال 2010-11 ء کی ریکارڈ پیداوار (دو کروڑ باون لاکھ ٹن) سے بھی گیارہ لاکھ ٹن زیادہ ہو گی اور دو کروڑ 73 لاکھ ٹن پیداوار کے ساتھ ایک نیا قومی ریکارڈ قائم کرے گی۔ پاکستان کے پاس اس کی اپنی قومی ضرورت سے بیس لاکھ ٹن زیادہ گندم برآمد کرنے کے لئے بھی ہو گی جو عالمی سطح پر گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث قیمتی زرمبادلہ کمانے کے کام آئے گی۔
قدرتی موسموں کی فیاضی، کسانوں اور کاشتکاروں کی جفاکشی اور محنت کے علاوہ کچھ کریڈٹ حکومت کو بھی دینا پڑے گا کہ سال 2007-08 کے تلخ تجربے کے بعد عالمی منڈی کی مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ سمگلنگ ہو گئی تھی۔ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت خرید ساڑھے نو سو روپے فی چالیس کے جی مقرر کر دی جو سال 2011-12ء تک جاری رہی اور پھر اس سرکاری قیمت خرید کو بڑھا کر ایک ہزار پچاس روپے فی چالیس کے جی کر دیا گیا کیونکہ اس دوران کاشتکاری کے اخراجات میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ گندم کی سرکاری قیمت خرید میں اس اضافہ کی وجہ سے گندم کے سرکاری ذخیرے منڈیوں میں گندم اور آٹے کی موجودگی کے چار سالوں تک ضامن بنے رہے۔ گندم کی موجودہ فصل کے لئے سرکاری قیمت خرید ایک ہزار دو سو روپے فی چالیس کلو گرام رکھی گئی ہے۔ اس اضافہ کو ہدف تنقید بنایا گیا اور بہت ساری لے دے بھی ہوئی مگر زرعی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق چالیس کلو گرام گندم کی پیداوار پر اخراجات کا اندازہ ایک ہزار چالیس روپے بنتا ہے اور گندم کی سرکاری قیمت خرید گزشتہ سال کی سطح پر رکھی جائے تو کاشت کاروں کو گندم کاشت کرنے کی ترغیب دینا مشکل ہو جائے گا۔ یہ گندم کی نئی سرکاری قیمت خرید ہے کہ جس کے زیر اثر گندم کی موجودہ فصل پیداوار کا نیا قومی ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ چالیس کلو گرام گندم کے پیچھے ڈیڑھ سو روپے کی کمائی تو کاشتکار اور کسان کا جائز حق بنتی ہے۔ گندم کی متوقع پیداوار کے دو کروڑ 73لاکھ ٹن میں سے تقریباً 75 فیصد پیداوار صوبہ پنجاب کی ہو گی۔ اوسطاً فی ہیکٹر پیداوار کا اندازہ اڑھائی ٹن سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں پیداوار اوسطاً دو اعشاریہ نو چار ٹن فی ہیکٹر اور بلوچستان میں دو اعشاریہ تین آٹھ ٹن فی ہیکٹر ہے۔ ملک کے تمام علاقوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ فصل کے لئے سب سے زیادہ مصدقہ بیج استعمال کئے گئے ہیں بعض علاقوں میں بہتر یافت والے بیجوں کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے شدید قلت بھی محسوس کی گئی۔ ربیع کی فصل کے لئے پہلے تین مہینوں میں تین سو تیرہ ہزار ٹن فاسفیٹ کی کھاد استعمال کی گئی ہے جو گزشتہ سال سے انیس فیصد زیادہ استعمال کی گئی۔ کسانوں اور کاشتکاروں نے زیادہ سے زیادہ پیداوار کی خواہش اور شوق کے تحت کھیتوں کو مناسب وقفوں کے ساتھ سیراب کیا۔ اگرچہ زرعی پیداوار کے سلسلے میں قدرت اور موسموں کی فیاضی بہت لازمی ہوتی ہے مگر تقدیر کے ساتھ تدبیر کا بھی بہت تعلق ہوتا ہے۔ بہترین کی توقع رکھنے والوں کو بدترین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رہنا پڑتا ہے اور ہمارے کاشتکار اور کسان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ قسمت ہمت اور جرأت کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔
تازہ ترین