• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت ہی مختصر مگر دل دہلانے والی خبریں ہیں، ’’ڈاکٹر ماہا نے خودکشی کرلی، کراچی میں۔ تربت میں ڈاکٹر شاہینہ شاہین کو گولی ماردی گئی، شیخوپورہ میں تین سالہ بچی ادھیڑ کے کوڑے میں پھینک دی، مولوی صاحب نے بارہ سالہ لڑکے کے ساتھ زیادتی کی، جب لڑکے نے ہاتھ روکا تو اس پر لوہے کے ڈنڈے سے مارا۔ فرانس سے آئی خاتون کو موٹروے پر بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘۔ یہ ایک دن کی خبریں ہیں۔ دوسری طرف اعلان نامہ آیا ہے کہ تمام تر شائع ہونے والی کتابیں، پہلے انفارمیشن میں جائیں گی اور پھر علما کا بورڈ اُن میں دیکھے گا کہ کوئی نازیبا، غیرشرعی اور دائرہ اسلام سے خارج مضمون شامل تو نہیں۔ پھر نصاب کا تجزیہ کریں۔

بچوں کا یکساں نصاب ان خطوط پر ہوگا جو روز میڈیا اور اخباروں میں دیکھتے ہیں۔ خیر حکومت توسب کچھ کر سکتی ہے۔ اگر چینل بند ہو گئے تو ایسی خبروں پر پابندی لگا سکتی ہے مگر باہر بیٹھے ہوئے احمد نورانی ہوں کہ غیرمذہب کے صحافی کیا انکے قلم چھین سکتی ہے۔ کیا بھارتی حکومت 86سالہ خاتون کے ریپ پر افسوس کے دو حرف بھی کہہ سکتی ہے، اب تو پولیس والوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے ہیں۔ آپ کو یاد کرائوں حیات بلوچ، کالج کا لڑکا تھا اسکو آٹھ گولیاں ماری تھیں۔ کہہ دیا گیا نامعلوم افراد کی گولیوں سے مارا گیا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ بلوچستان میں ہی وہ بلوچ لڑکے بھی اغوا کر لئے گئےجو قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز کرکے گئے تھے۔ پولیس افسران بھی اب بہت شیخی میں آگئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے خاتون کو اس وقت نکلنا نہیں چاہئے تھا۔ کوئی کہتا ہے یہ کیسی پڑھی لکھی ہے، اس نے گاڑی کا پیٹرول چیک نہیں کیا۔ یاد رہے یہ بیانات پولیس والوں کے ہیں۔ انکے حوصلے تو اس لئے بھی بلند ہورہے ہیں کہ دن دیہاڑے ٹریفک کانسٹیبل کو کچل کے چلے جانا اور جیل سے صاف نکلنا، آخر وہ بلوچ تھا۔ اس نے بلوچوں کو یوں بدنام کیا، محض اس لئے کہ وہ خان زادہ تھا۔ ابھی میرے قلم نے سامنے دیکھا تونسہ میں گھر میں گھس کہ بچوں کے سامنے خاتون کے ساتھ زیادتی کرکے، ایسے غائب ہوئے کہ چیف منسٹر بھی حیران ہیں۔ دراصل جب یہ نئی نئی حکومت آئی تھی تو پولیس کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر کوئی اشارے یا آپ کے ٹارچ کی لائٹ پر نہ رکے تو اسکو گولی مار دو۔ پولیس والوں نے اس آزادی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اب تک اٹھارہے ہیں۔ پہلے شہباز شریف نے ایلیٹ فورس بھرتی کی تھی اسکا کیا نتیجہ نکلا۔ اس حکومت نے ٹائیگر فورس بنائی، وہ کیا کرتی ہے معلوم نہیں۔ آپ سوچیں، جن بچوں کے سامنے ان کی مائوں کو یوں رگیدا جائیگا، بھلا انکی نفسیات کیا ہوگی۔ وہ ذہنی طور پر کنفیوژ ہوکر بڑے ہوکر، تعلیم کے میدان میں کیا کریں گے۔ کیا وہ بھی بڑے ہوکر عورتوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔


ایک اسکول میں بچیوں سے پوچھا گیا کہ آپ کے ابا کیسے ہیں۔ کسی نے کہا بہت اچھے کسی نے کہا ہر وقت گالیاں دیتے اور مارتے ہیں۔ ایک بچی نے کہا ’’مس چٹ لکھدیں، ابا، امی کو ہمارے سامنے نہ مارا کریں۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی‘‘۔ ایسے ماحول میں جوان ہوئی بچیاں شادی سے انکار کردیتی ہیں۔ بہت سی بچیاں ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔ یہ جتنے لوگ ایسی اذیت دیتے ہیں کیا یہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر ڈاکٹر ماہا کو خودکشی پر مجبور اور تنگ کرنے والا بھی تو پڑھا لکھا تھا۔ ڈاکٹر شاہینہ کو تربت میں مارنے والا بھی کوئی وحشی تو نہیں ہوگا۔

اب چونکہ پریس میڈیا میں آنے لگا ہے تو لوگوں کو پتا چل رہا ہے۔ عیسائی مذہب میں بھی ایسی وارداتیں پچھلی صدی میں اتنی عام تھیں کہ ان پر ناول بھی لکھے گئے۔ پادریوں اور خواتین ننوں کے قصے بھی عام ہونے لگے تو بیسویں صدی میں پوپ نے اجازت دی کہ جو پادری شادی کرنا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ جنسیت کی وحشت یوں تو سارے ممالک میں ہے مگر بھارت، پاکستان میں تو ٹیکسی میں بیٹھی عورت بھی اب محفوظ نہیں رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دیہات میں لڑکی کی عصمت بچانے کے لئے جلدی شادی کردی جاتی ہے مگر اسکے اچھے نتائج تو نہیں نکلتے ہیں۔ مرد کے ہاتھ میں دوسری شادی کا اجازت نامہ پکڑا کر وہ ایک اور گھر بسا لیتا ہے۔

جس دن سے فرانس سے آنے والی خاتون کے ساتھ اور ڈی۔ جی۔ خاں کی تحصیل میں ایک خاتون کے ساتھ اسطرح زیادتی ہوئی کہ دونوں خواتین کے بچے سامنے موجود تھے۔ اس دن سے مجھے یہ دکھ کھائے جارہا ہے کہ جن بچوں نے یہ منظر دیکھے، مائوں کو چیختے اور روتے دیکھا، انکی نفسیات کیسی ہوگی۔ کیا انکے اندر بھی عورت چاہے وہ ماں ہی کیوں نہ ہو، اسکو بھنبھوڑنے کی نفسیات پرورش پائے گی کہ وہ بچے سہمے نوجوان ہوں گے، انکے اندر عورت کا کیا تصور مستحکم ہوگا۔ وہ سارے مذہبی پیشوا جو دوسری شادی کی اجازت طلب کررہے ہیں، کیا عورتوں پر ہوتی زیادتیوں پر زبان نہیں کھول سکتے۔ میں تو خدا کا شکر کرتی ہوں کہ اخباروں نے ان خواتین پر فیس بک والے فقرے رپورٹ نہیں کئے۔ شکر ہے کہ خواتین کے گھر والے انٹرویو نہیں دینے دے رہے ہیں۔ مجھے تو بار بار وہ عدالتیں یاد آتی ہیں جہاں زنا بالجبر کی شکار عورتوں سے کہتے ہیں ’’ذرا کھل کے دسو، ہویا کی اونیں تیرے نال کی کیتا اے‘‘۔ افسوس اور حیرانی کے ساتھ عمر شیخ کی اسد عمر کے ساتھ بےہودہ گفتگو اور اس خاتون کے بارے میں نازیبا کلمات اللہ اسے معاف نہیں کرےگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین