• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ رواں ماہ کی تیرہ تاریخ کی بات۔پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے ذرایع ابلاغ کو بتایا تھا کہ موٹروے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث دو ملزمان کی شناخت ہو گئی، ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی اٹھائیس ٹیمز کوششیںکررہی ہیں۔اس کیس میں ملزمان کی شناخت سائنسی طریقے سےکی گئی۔آئی جی پنجاب پولیس کے مطابق ملزم عابد علی نے اپنی تمام موبائل فون سمز بند کر دی تھیں اور وہ کسی اور کا نمبر استعمال کر رہا تھا۔ جیو فینسنگ سے ملزمان کی جائے واردات پر موجودگی ثابت ہوتی ہے۔

اس سے قبل وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا تھا کہ موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے۔

پھر اسی روز یہ خبر بھی آئی کہ ملزم عابدعلی کا پروفائل ڈی این اے متاثرہ خاتون کے نمونے سے میچ ہوگیا ہے ۔کریمنل ڈیٹابیس میں عابدعلی2013سےموجود ہے ۔ وقار کا بھی مجرمانہ ریکارڈ محفوظ بتایا جاتا ہے۔

بارہ ستمبر کو یہ خبر آئی تھی کہ متاثرہ خاتون کا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے والے دو مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیاہے۔ان افراد نے متاثرہ خاتون کے اکاوَنٹ سے رقم کی ٹرانزیکشن کی کوشش کی تھی۔ دونوں افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کےلیے نمونے حاصل کرلیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں سات مشتبہ افراد کی ڈی این اے میچنگ کروائی گئی ہے۔پولیس نے کرول گاؤں کے سینتالیس مردوں کے ڈی این اے کےٹیسٹ کے لیے نمونے لیے ہیں۔

پھر اس طرح کی خبریں آتی رہیں کہ اس جرم کی تفتیش اور تحقیق کے لیے روایتی اور جدید، دونوں طریقے استعمال کیے جارہےہیں۔کھوجیوں کی مدد سے جائے وقوعہ کے اطراف پانچ کلومیٹر کا علاقہ چیک کرکے مشتبہ پوائنٹس مارک کرلیے گئےہیں۔ کھوجیوں کی نشان دہی اور مختلف شواہد کی بنیاد پرپندرہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اوران کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے ہیں۔ایف آئی آر میں نام زد ملزمان سے ملتے جلتے حلیےکے حامل پندرہ مشتبہ افرادکی پروفائلنگ کی گئی ہے۔ تین مختلف مقامات سے جیو فینسنگ کے لیے موبائل فون کمپنیزسے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔مقامی طورپر نصب سی سی ٹی وی کیمروںسے مشتبہ افراد کی وڈیو ریکارڈنگ حاصل کرکے شناخت کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پولیس نے متاثرہ خاتون کے بیان کی روشنی میں ملزمان کے خاکے بھی بنوا لیے ہیں۔

چودہ ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس گھناونے جرم میں ملوث ملزم شفقت کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم کا ڈی این اے میچ کرچکا ہے اور اس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔ اسی طرح ایک اور ملزم وقار الحسن کی گرفتاری اور اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے فیصلے کی خبر بھی آئی۔ اسی روز چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے آصف محمود اور ندیم سرور نامی وکلا کی جانب سے اس کیس کے بارے میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی سماعت کی۔سماعت کے دوران سی سی پی اولاہور عدالت کو بتایا کہ 'جب نامعلوم ملزموں کا معاملہ آئے تو ہم سب سے پہلے جیو فینسنگ کرتے ہیں۔ ہم نے فنگر پرنٹس اورڈی این اے کے سیمپلز بھی جانچ کے لیے بھجوا دیے ہیں۔ مرکزی ملزم کا تعلق کرول کے علاقے سے ہے۔ ہم نے 53 لوگوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کیے ہیں۔

یہ تمام نکات یہاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی پولیس بہ ظاہر اس کیس میں میڈیکل اورڈیجیٹل فورینزک کا کافی حدتک استعمال کررہی ہے جو جرم کی تحقیق اور تفتیش کے ضمن میں استعمال ہونے والی فورینزک سائنس کی دو شاخیں ہیں۔اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ کیس میں صوبہ پنجاب کی پولیس جیو فینسنگ اور ڈی این اے ٹیسٹ کو بہت اہمیت دے رہی ہے۔

درجِ بالا خبروں سے عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ جیو فینسنگ اور ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہوتا ہے اور یہ فورینزک سائنس کس بلا کا نام ہے۔دوسری جانب بہت سے افراد فورینزک سائنس کے بارے میںتھوڑی بہت معلومات تو رکھتے ہیں،لیکن وہ جرائم کی تفتیش اور تحقیق کے لیے استعمال ہونے والی اس جدید سائنس کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش منددکھائی دیتے ہیں ۔وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سائنس کیا ہے۔

فورینزک سائنس ،ایک انقلابی علم

جرم کی تحقیق اور تفتیش اور عدالت میں جرم اور مجرم کے درمیان تعلق ثابت کرنے کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے ۔ وقت کے ساتھ جرائم کی نوعیت پے چیدہ ہوتی جارہی ہے، لہٰذا ان کی تفتیش اب آسان نہیں رہی ۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے بھی نت نئی مہارتوں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے جارہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک جرم کی تفتیش سے متعلق نت نئی مہارتوں اور ٹیکنالوجی کے ضمن میں بہت آگے ہیں۔یہ درست ہے کہ مغربی دنیا کے تفتیش کار بعض اوقات جرم ہونے سے پہلے مجرموں کا کھوج لگا لیتے ہیں اور وہاں اکثر جرائم کی کام یابی سے تفتیش ہوجاتی ہے، لیکن ایسا کیوں کر ہوپاتا ہے؟ جدید دور میں اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہاں جرم کی تفتیش کے دوران جدید ترین سائنسی نظریات اور ٹیکنالوجی سے بھرپور مدد لی جاتی ہے اور اس ضمن میں فورینزک سائنس (Forensic Science) کا کردار سب سے اہم گردانا جان جاتا ہے ۔اسے مختصراً فورینزکس (Forensics) لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

انگریزی زبان میں فورینزک کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ Forensis سے آیا ہے، جس کے معنیٰ ہیں Forum ۔ رومیوں کے دور میں کسی شخص پر کوئی جرم کرنے کا الزام لگایا جاتاہے تو مقدمہ عوامی نمائندوں کے گروہ کے سامنے پیش ہوتا۔ ملزم اور مدعی اس گروہ کے سامنے پیش ہوکر اپنے مؤقف کے حق میں تقریر کرتے یا بیان دیتے ،جو شخص بہترین انداز میں اپنا مدعا بیان کرتا، مقدمے کا فیصلہ اس کے حق میں ہوجاتا۔ المختصر، جو شخص اپنی بہترین فورینزک مہارت کا مظاہرہ کرتا، وہ جیت جاتا۔ واضح رہے کہ انگریزی زبان میں فورینزک کے معنیٰ ہیں: عدالتی، قانونی یا وہ عدالتی امور، جو بالخصوص تفتیشِ جرم سے تعلق رکھتے ہوں۔ 

اردو زبان میں فورینزک سائنس کا ترجمہ قضائی علم کیا جاتا ہے، یعنی وہ علم جو قضا (موت) سے متعلق ہو۔تاہم جدید دور میں اردو اور انگریزی زبانوں میں اس سائنس کا ایک یا دو لفظوں میں جامع ترجمہ کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے، کیوں کہ اب اس علم کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان کی بھی لغات میں اس کے لفظی ترجمے کے بجائے تشریح ملتی ہے، جو کچھ یوں ہے: ’’عدالتی نظام میں اٹھائے جانے والے سود مند سوالات کا جواب دینے کے لیے سائنسی علوم کا وسیع پیمانے پر اطلاق‘‘یا ’’شواہد جمع کرنے اور ان کی جانچ پرکھ کے لیے استعمال کیا جانے والا سائنسی طریقہ۔‘‘

پہلے فورینزک سائنس کی اصطلاح کا ذکر آتے ہی ذہن میں ہاتھ کی انگلیوں، ہتھیلیوں، پیروں اور دانت کے نشانات، خون کے دھبوں، بال، کپڑوں یا چمڑے وغیرہ کے ریشوں، ہاتھ یا ٹائپ رائٹر سے لکھی گئی عبارت، اس میں استعمال ہونے والی روشنائی اور کاغذ، آتشیں ہتھیار اور اس میں استعمال ہونے والی اشیا، مثلاً بارود، چھروں، گولی کے خول وغیرہ کے معائنے کا تصور ابھرتا تھا، لیکن اب یہ اصطلاح بہت وسعت اور جدّت اختیار کرگئی ہے۔ اس سائنس کی معلوم تاریخ کے مطابق کسی جرم کا پتا لگانے کے لیے سب سے پہلے طبّی معلومات کے استعمال کا سراغ 1248ء میں چین میں تحریر کی گئی ایک کتاب میں ملتا ہے۔ ’’برائی کو دھو ڈالنے‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی اس کتاب میں ڈوب کر ہلاک ہونے اور گلا گھونٹ کر ہلاک کیے جانے کے فرق کو جانچنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ اطلالوی ڈاکٹر Fortunatus Fidelis جدید طبِ قانون (Forensic Medicine) استعمال کرنے والا پہلا شخص قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے یہ سلسلہ 1598ء میں شروع کیا تھا۔ قانونی معاملات میں طبّی معلومات کا استعمال طبِ قانونی کہلاتا ہے اور انیسویں صدی کے اوائل میں اسے طب کی ایک شاخ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

ہر مجرم کوئی سراغ یا نشان ضرور چھوڑتا ہے

فرانس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایڈمنڈلو کارڈ نے کہا تھا: ’’ہر رابطہ یا تعلق کوئی نہ کوئی سراغ یا نشان ضرور چھوڑتا ہے۔ 1877ء میں پیدا ہونے والے لوکارڈ کے اس قول نے لوکارڈ ایکس چینچ پرنسپل کے نام سے عِلم جرمیات میں عالمی شہرت پائی، لہٰذا بعد میں اسے فرانس کے شرلاک ہومز کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ اس کا یہی اصول فورینزک سائنس کا بنیادی اصول مانا جاتا ہے۔

جدید دنیا میں جرمیات کے شعبے میں فورینزک سائنس کا استعمال تقریباً ایک صدی قبل شروع ہوگیا تھا، جب ایڈمنڈلوکارڈ نے دنیا میں پہلی کرائم لیب 1910ء میں ایک پولیس اسٹیشن کی بالائی منزل پر قائم کی تھی۔آج دنیا اس شعبے میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ ایسی سائنس ہے جس کے ذریعے ماضی اور مستقبل میں بھی جھانکا جاسکتا ہے۔ ماضی میں ہونے والے جرم کا پوری صحت سے سراغ لگایا جاسکتا ہے اور مستقبل میں ہونے والے جرائم بڑی حد تک روکے جاسکتے ہیں۔

جیو فینسنگ

جیو فینسنگ، فورینزک سائنس کی شاخ ڈیجیٹل فورینزک کا ایک شعبہ ہے۔ کسی بھی مخصوص مقام یا علاقے کے گرِد ورچوئل باؤنڈری یا ہوا میں معلّق یا غیر مرئی چہار دیواری بنانے کا عمل جیو فینسنگ کہلاتا ہے۔اس چہار دیواری میں داخل ہونے والے کا موبائل ڈیٹا اس تک پہنچنے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے اورحاصل شدہ معلومات کےذریعے کسی مقام پر آنے جانےتک کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔

پاکستان کے انٹنٹیلی جینس بیوروکے سابق ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر شعیب سڈّل کے بہ قول عام طور پر دہشت گردوں کا پتا جیو فینسنگ کے ذریعے ہی لگایا جاتا ہے۔ یہ کام عام طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاصی مدد بھی ملی ہے۔اس کے بعد یو ٹیوب یا دیگر ایپ کے استعمال سے بھی جگہ ڈھونڈنے میں مدد ملتی ہے۔ 

جیو فینسنگ سے یہ پتا چلتا ہے کہ کس سیل ٹاور کے نزدیکی علاقے میں یہ فون نمبر استعمال کیا جارہا ہے جس کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ فردیا دہشت گرد کے کافی نزدیک پہنچ جاتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ فون نمبر استعمال کرنے والے شخص کے گھر کے سو یا ڈیڑھ سوقطر تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب تو ایسے آلات بھی آچکےہیں جو ڈیڑھ سوقطر سے بھی کم فاصلے کی نشان دہی کر دیتے ہیں۔

اس ضمن میں کسی مخصوص فون نمبر کے ذریعے نزدیکی سیل ٹاور اور اس کے ذریعے فرد کا پتانکالا جاتاہے۔اس عمل میں پتے سمیت مذکورہ شخص کےآن لائن ہونے کے اوقات کابھی پتا لگ جاتا ہے۔

پہلے پاکستان میں بہت کم مراکز پر جیو فینسنگ کی سہولت دست یاب تھی، لیکن اب مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں یہ سہولت موجود ہے۔ یہ جی۔پی۔ایس یا آر۔ ایف۔ آئی۔ ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک جغرافیائی حد بندی کر لیتی ہے اور اس سے پتا چل جاتا ہے کہ کسی مخصوص علاقے میں کوئی موبائل فون کب داخل ہوا اور کب وہاں سے نکلا۔ جرم ہونے کے بعد مجرموں کو ڈھونڈنے کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے۔اس کام کے لیے کسی مخصوص علاقے سے مخصوص وقت پر تمام موبائل کمپنیوں کا تمام کالز کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ

فورینزک سائنس میں آج بہت زیادہ اہمیت کا حامل ڈی این اے ٹیسٹ ہے۔ ڈی این اے دراصل ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ کا مخفف ہے، جو ہر جان دار کے خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ یہ دراصل کسی جان دار کی جینیاتی شناخت ہوتی ہے۔ جسے Genotype کہتے ہیں۔ ہر جان دار کی جینوٹائپ علیحدہ ہوتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ یا ڈی این اے پروفائلنگ کے لیے مالیکیولر جینیٹک طریقے استعمال کیے جاتے ہی۔ ڈی این اے خون، لعابِ دہن، مادۂ منویہ، ہڈی اور جِلد سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جرائم کی تحقیق کے لیے جینیاتی شواہد کا استعمال پہلے پہل خون کے گروہوں کی درجہ بندی کی صورت میں سامنے آیا۔ 1980ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ ڈی این اے کی بنیاد پر فورینزک ٹیسٹ کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں اس کے لیے RFLP کا طریقہ استعمال کیا گیا، لیکن پھر اس کی جگہ PCR طریقے نے لے لی، جو آج دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر فورینسک مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 

جدید طریقے کے مطابق کرۂ ارض پر موجود کوئی بھی دو انسانوں کے درمیان فرق تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اب ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے خاندانی تعلق کا بھی پتا لگایا جاسکتا ہے، مثلاً الف، ب کی اولاد ہے یا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب یہ ٹیسٹ بہت سے قانونی اور عدالتی معاملات میں قابلِ اعتماد اور ضروری قرار پا گیا ہے۔ پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولتیں آج بھی صرف دو چار مقامات تک محدود ہیں اور یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ اخراجات کرنے کی بات کی جاتی ہے، لیکن امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ سہولت فراہم کرنے والے ادارے، ہر علاقے میں موجود ہیں اور وہاں 99 ڈالر کے عوض یہ سہولت گھر بیٹھے فراہم کردی جاتی ہے۔

انسان کے جینوم میں تین ارب بنیادی جینیاتی جوڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے 99.5 فی صد سے زائد جوڑے دیگر اشخاص کے جوڑوں سے مختلف نہیں ہوتے، تاہم 0.5 فی صد سے کم جوڑوں کی ترتیب مختلف ہوسکتی ہے، جنہیں متعدد شکلی یا Polymorphic ترتیب کہا جاتا ہے۔ فورینسک مقاصد کے لیے ان ہی جوڑوں کی ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

ڈی این اے کو سمجھنے کے لیے عام طور پر جو مثال دی جاتی ہے وہ کسی مکان کے بلیو پرنٹ یا نقشے کی ہے۔ جس طرح بلیو پرنٹ کے مطابق گھر تعمیر کیا جاتا ہے، ویسے ہی ڈی این اے کے اندر ہدایات پر عمل کر کے جسم کا پورا ڈھانچا تعمیر کیا جاتا ہے۔ جیسے ہر مکان کی تعمیر کا نقشہ الگ ہوتا ہے، ویسے ہی ہر انسان کے جسم کی تعمیر کے لیے الگ الگ نقشے ہوتے ہیں۔چناں چہ اگر آپ کو کسی مکان کا نقشہ مل جائے تو اس کی مدد سے آپ اس گھر کو پہچان سکتے ہیں۔

جسم تعمیر کرنے اور اس کا نظام چلانے کے لیے ڈی این اے کی ہدایات ایک خاص زبان میں درج ہوتی ہیں۔ اس زبان کے حروفِ تہجی صرف چار ہوتے ہیں اور انھیں عام طور پر رومن حروف A, C, T, G کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایک انسان کا مجموعی ڈی این اے (جسے 'جینوم کہا جاتا ہے) تین ارب الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر یہ ساری ہدایات مکمل طور پر لکھی جائیں تو اس سے عام سائز کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں بن جائیں گی۔

ڈی این اے کے چار 'حروف کسی زبان کے حروف کی طرح نہیں، بلکہ دراصل کیمیائی مرکبات ہیں جنہیں A, C, T, G کا نام دے دیا گیا ہے اور یہ جینوم میں ایک مخصوص ترتیب سے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جس طرح کسی زبان کے الفاظ کو ایک خاص ترتیب میں لکھنے سے پوری کتاب مرتب ہو جاتی ہے، اسی طرح ڈی این اے کے ان مرکبات کی مخصوص تکرار سے کسی ایک مخصوص انسان کا جینوم تیار ہو جاتا ہے۔

جس طرح ہر انسان کی انگلیوں کے نشانات مخصوص ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح ہر انسان کی ڈی این کی کتاب منفرد اور مخصوص ہوتی ہے۔

ڈی این اے کے بنیادی حروف چوں کہ کیمیائی مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے لیباریٹری میں کیمیائی طریقوں سے انہیں ٹیسٹ کر کے کسی ملزم کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ اس عمل کو ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کہا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ملزم کے جسم کے کسی بھی حصے سے ڈی این اے کا نمونہ حاصل کیا جائے ۔ یہ نمونہ اس کے بالوں، تھوک، جنسی رطوبت، خون،رال یا جلد کے کسی ٹکڑے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے تاکہ نمونے کوکسی اور کا ڈی این اے آلودہ نہ کر سکے۔ اگر نمونہ حاصل کرنے والے اہل کار کو چھینک بھی آ جائے تو اس کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

اب ڈی این اے کو صاف کیا جاتاہے، اور اگر اس کی مقدار کم ہوتو اسے پی سی آرتیکنیک کے ذریعے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ڈی این اے کے ان حصوں کو کیمیائی طور پر شناخت کرنا آسان ہوتا ہے جہاں بار بار ایک ہی حرف دہرایا گیا ہو۔اسے شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (STR) کہا جاتا ہے۔ کسی ایک ایس آر ٹی کی مثال کچھ یوں ہو گی:

اس مثال میں AT پانچ بار دہرایا گیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آلات اس قسم کی تکرار کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔ چوں کہ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے، اس لیے اس کے اندر پائی جانے والی تکراریں بھی منفرد ہوتی ہے۔ عام طور پر چار حروف کی تکرار زیادہ آسانی سے پکڑی جاتی ہے۔اگر صرف چند تکراروں کے نمونے آپس میں مل جاتے ہوں تو ایسا اتفاقی طور پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ بار تکرار ہو بہو ایک جیسی ہو تو ایسے اتفاق کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں 178 کواڈریلین انسان موجود ہوں، تو ان میں سے دو کے ڈی این اے کے آپس میں ملنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن چوں کہ دنیا کی مجموعی آبادی اس تعداد کے مقابلے میںدو کروڑ گنا سے بھی کم ہے اس لیے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پولیس کو اس کا مطلوب شخص مل گیا ہے۔

تازہ ترین