• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2008 میں ہونے والے انتخابات میں تمام ملک میں بننے والا سیاسی منظر نامہ یکساں رنگ لئے ہوا تھا ۔ اُس وقت دوسرے صوبے بھی اتنے ہی اہم تھے جتنا پنجاب۔ تاہم اس مرتبہ رنگوں اور رومانوی داستانوں کی اس سرزمین پر ہماری سیاسی تاریخ کا ایک فیصلہ کن باب لکھے جانے کا وقت آگیا ہے۔ دوسرے صوبوں میں ہونے والے سیاسی معرکے بھی اہم ہیں لیکن فی الوقت ان کی اہمیت ثانوی ہو چکی ہے جبکہ تمام نظریں پنجاب میں ہونے والی انتخابی مسابقت پر مرکوز ہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے… یا کیا ہونے والا ہے۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سیاسی پلڑے میں اپنا وزن بعد میں ڈالیں گے،پہلے یہ دیکھا جانا ہے کہ پنجاب کے سیاسی ترازو پر کس کا کیا وزن ہے۔ یہ فیصلہ ہونے میں اب زیادہ نہیں، صرف دوہفتے کے قریب وقت رہ گیا ہے کہ کیا پھر وہی پرانے ساز بجتے ہیں یا اس مرتبہ موسیقی کی لے تبدیل ہوتی ہے اور پانچ دریاؤں (جن میں سے اب تک تین بے آب و گیاہ صحارا کی یاد دلاتے ہیں)کی یہ سرزمین روایتی کھانوں کی لطافت اور نظریہ ٴ پاکستان کی امانت کا بوجھ سنبھالے کس کی حمایت کیلئے دامن ِ دل وا کرتی ہے؟
پنجاب کی پرانی اور روایتی سیاست کے دعویدار رائے ونڈ کے نمائشی شیر ہیں جو اپنی کامیابیوں کی تشہیر کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں۔ ماضی میں ان کو بنکوں کی طرف سے مالی وسائل اور عدلیہ اور انتظامیہ کی طرف سے تعاون کی کوئی کمی نہیں رہی ہے ، تاہم عملی میدان میں ان کا کارنامہ کیا ہے؛ سستی روٹی، لیپ ٹاپ، دانش اسکول اور جنگلا بس سروس وغیرہ ؟گزشتہ پانچ سالوں کے دوران وہ پنجاب بھر میں انقلابی ترقی برپا کر تے ہوئے پولیس، پٹوار اور دیگر محکموں کے کلچر کو بدل سکتے تھے ، لیکن یہ دور اُنہوں نے فضول اور بے کار کاموں ، جن کا مقصد خود ستائی کے سوا کچھ نہ تھا، میں گزار دیا۔ اگر ان کو ایک موقع اور ملتا ہے تو وہ ایک بار پھر اسی ”کارکردگی “ کو دہرائیں گے ۔ ان کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جیسے آٹے اور پانی کے ملاپ سے ایک ہی آمیزہ وجود میں آتا ہے ، اسی طرح ان سے بھی ایک طرح کے ہی طرز ِ عمل کی توقع ہے۔ یہ عمل (آٹے میں پانی ملانے کا )ہزار مرتبہ دہرالیں، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہوگا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ نواز لیگ کی سیاسی اہمیت معدوم ہوچکی ہے اور اگر موجودہ سیاسی فضا کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں اگلی حکومت ان کی ہی بنے گی۔ اس وقت مسٹر نجم سیٹھی نگراں وزیر ِ اعلیٰ ہیں لیکن تمام بیوروکریسی اور عوامی عہدیداروں کو یقین ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں شہباز شریف واپس آجائیں گے جبکہ اُن کی انگلی پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہو گی۔ اس توقع کے ساتھ چھوٹے بڑے تمام سرکاری ملازمین ، پٹوار ی سے لے کر تھایندار تک، ان کی مژگان کے اشارے کو سمجھتے ہیں۔دراصل نواز لیگ کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران توقعات کا یہ عنصر اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اگر یہاں بھی توقعات کی جگہ بے یقینی کی فضا قائم ہوجائے، جس میں تمام سیاسی جماعتیں برابر ہوں تو پھر شیروں کو حاصل برتری ہوا ہو جائے گی۔
شکار،جاسوسی اور سراغ رسانی کے سدھائے ہوئے کتوں کی قوت ِ شامہ شاید اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی پنجاب کے سیاسی کھلاڑیوں کی جو ہوا کو سونگھ کر آنے والے واقعات کو بھانپ لیتے ہیں۔ تاہم ہر مرتبہ اُن کا اندازہ اور فیصلہ درست نہیں ہوتا، خاص طور پر 1970میں اُن کو اندازے کی غلطی ہو گئی تھی، تاہم یہ دیکھا جانا ہے کہ اس مرتبہ وہ حالات کا ادراک کس طرح کرتے ہیں۔ اس وقت تک نواز لیگ یہ سمجھتی ہے کہ تمام پتے اس کے ہاتھ میں ہیں، لیکن 2008میں ق لیگ کا بھی یہی خیال تھا۔ بہرحال 2008 کے انتخابات دوٹوک تھے کیونکہ ان میں ایک طرف مشرف اور اُن کے حامی تھے جبکہ دوسری طرف نام نہاد جمہوریت کے چیمپئن تھے۔ تاہم اس مرتبہ صورت ِ حال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ، کیونکہ پی پی پی کی مقبولیت کا گراف گر چکا ہے اور بظاہر وہ پنجاب کی انتخابی سیاست میں تیسرے درجے تک محدود ہو چکی ہے۔ اس وقت پنجاب میں نواز لیگ کی پوزیشن مستحکم ہے لیکن اپنے عقربی حجم کی وجہ سے اس پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ کوئی قوی لیکن تھکا ہوا جنگجو ایک نوعمر لیکن تازہ دم مدِ مقابل(عمران خان) کے سامنے پسینے سے شرابور، گھبراہٹ کا شکار ہے۔
یہ سیاسی پنجہ آزمائی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان نہیں ہے … پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتیں کہاں ہیں ؟اور پھر پرانی نظریاتی جنگیں بھی قصہ  پارینہ بن چکی ہیں۔ یہ مقابلہ ضیا الحق اور خفیہ اداروں ، جن کے چیف میرے دوست جنرل حمید گل تھے، کے پروردہ نواز شریف اور سیاسی میدان میں پرانے لیکن اپنی نئی ٹکسال کرنے کے بعد میدان میں خم ٹھونک کر اتر تے ہوئے تبدیلی کا سندیسہ دینے والے عمران خان کے درمیان ہے۔ یہ دونوں دائیں بازو کی نمائندگی ہی کرتے ہیں۔ نواز شریف کی دوٹوک سیاست ، جس کے لئے ”دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی“ کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، کی طرح ہے اور یہ رویہ ان کی پی پی پی کی نااہل حکومت کے ساتھ محاذ آرائی پر مبنی سیاست کے دور میں کامیاب رہا، لیکن اب معاملہ کافی مختلف ہے۔ اب عمران خان اور اُن کی پارٹی کی طرف سے سامنے آنے والے چیلنج سے نمٹنے کے لئے نواز لیگ ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔
چند دن پہلے لاہور کے کاروباری افراد سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے جدید سنگاپور کے بانی اور اس پرتین دہائیوں تک حکمرانی کرکے اسے جدید ترین ریاست میں ڈھالنے والے لی کن یو(Lee Kuan Yew)اور ملائیشیا کے سابق وزیر ِ اعظم مہاتیر محمد کی مثالیں دیتے ہوئے پیشہ وارانہ مینجمنٹ پر بات کی۔ نواز لیگ کے افلاطونوں کو اس یونانی (فلاسفی ) کی کوئی شد بد نہیں ہے۔ وہ تو نہایت ادب کے ساتھ نواز شریف صاحب کو ”محترم قائد، محترم لیڈر…“ وغیر ہ کے القاب سے پکارنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ ان دونوں جماعتوں کے کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شریف برادران آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ ماضی میں تھے، لیکن اب جو ایک نیا پاکستان ابھر رہا ہے، وہ اس کے بدلتے ہوئے معروضات کی تفہیم کرنے سے قاصر ہیں، مثال کے طور پر ان کی دوسری نسل کے رہنما حمزہ شہباز کو دیکھیں تو اس کا چہرہ اُس کی شخصیت کے کھوکھلے پن کی غمازی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُس نے زندگی میں کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا ہو۔ اگر کیا ہوتا توشاید بات قدرے مختلف ہوتی ۔
نواز لیگ کی طرف سے لاہور میں کی جانے والی ٹکٹوں کی تقسیم بہت کچھ کہتی ہے: این اے 127 میں ٹکٹ وحید اسلم کو ملا ہے اور وہ اُس جج کا بھائی ہے جس نے مس عائشہ احد کو دس دن کے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔ این اے 130 میں ٹکٹ کے حقدار سہیل شوکت بٹ قرار پائے اور وہ پیلابٹ ، جس نے لاہور کی مشہور بیکری پر پیش آنے والے ایک واقعے میں شریف فیملی اور ایک ملازم کے درمیان ہونے والے ایک ناخوشگوار واقعے کا تصفیہ کرایا تھا، فرزند ہے(مذکورہ ملازم اُس خاندان کی کسی خاتون کا حکم بجالانے میں قدرے تساہل کا مرتکب ہوا تھا)۔ ہر کوئی اس قسم کی سیاست میں مہارت نہیں رکھتا ہے۔ ماضی میں شریف برادران خفیہ اداروں کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اُ ن کے مفادات کا خیال رکھتے تھے اور ان کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں کے واقعات سامنے آتے رہتے تھے، تاہم جب حالات تبدیل ہوئے تو اُنھوں نے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا۔ جب وہ صدر غلام اسحق مرحوم کے قریب تھے تو اُنھوں نے کہا وہ اُ ن کے والد کے مترادف ہیں، لیکن بہت جلد غلام اسحق خان نے اُن کو وہ ”بزرگانہ نصیحت “ سے نوازا جو شاید اُن کو کبھی نہیں بھولنی چاہئے تھی۔ تاہم جب لغاری صدر بنے تو اُنھوں نے اُن کو محترمہ کے خلاف استعمال کیا۔ فاروق لغاری کا اعتماد جیتنے کیلئے عابدہ حسین اور شاہد حامد کا سہار ا لیا گیا۔ تاہم مقصد پورا ہونے کے بعد ان تینوں کو فراموش کر دیا گیا۔
اس قسم کی سیاست اُس وقت تک کام دے رہی تھی جب سیاسی تدبیر(اگر اسے تدبیر کا نام دیا جا سکے)صرف پی پی پی، نواز یا پی پی پی مخالف جذبات ہی پیدا کرنے کیلئے کافی سمجھی جاتی تھی، لیکن آج یہ معروضہ بدل چکا ہے کیونکہ آج پاکستان ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب پنجاب پی پی پی کا گڑھ تھا ، لیکن گزشتہ تیس برسوں سے یہ شریف برادران کا سیاسی قلعہ ہے۔ اس قلعے میں پہلی مرتبہ سنگین قسم کا شگاف پڑا ہے، یہ وہ کام ہے جو مشرف حکومت نہ کر سکی اور نواز لیگ خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتی تھی کہ پی ٹی آئی یوں دن دہاڑے اس کے مقابل آجائے گی۔ اب ہوا یہ ہے کہ عمران کے لئے بھی وہی پچ ساز گار ہے جہاں شریف برادران رنز کے انبار لگاتے رہے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران میں جدت کی سوئنگ موجود ہے اور اس کا نواز لیگ کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔ عمران کے ساتھ طلبہ اور نوجوان ہیں جبکہ نواز لیگ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان نوجوانوں سے کیسے نمٹیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے تھے کہ ان میں لیپ ٹاپ تقسیم کرڈالیں، لیکن وہ بھول گئے کہ جو خواب عمران نے اُنہیں دکھایا تھا وہ دنیا بھر کے لیپ ٹاپ بھی ”ڈاؤن لوڈ “ (لفظی مطلب پر غور کیجیے) نہیں کر سکتے تھے۔
بہرحال ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی شریف برادران کی مقبولیت سے صرف ِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات میں صرف اس بات کا فیصلہ ہونا ہے کہ عمران خان ان کے قلعے میں کتنی نقب لگا سکتا ہے۔ اسی معرکے نے ان انتخابا ت کو ہماری تاریخ کے دلچسپ ترین انتخابات بنا دیا ہے۔ پنجاب میں انتخابی محاذآرائی اس قدر غیر یقینی پن کا شکار ہے کہ فی الحال کوئی سیاسی پنڈت بھی پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بہرحال نجومیوں اور جوتشیوں کو پیش گوئیاں کرنے دیں، ایک بات یاد رکھیں کہ دنیا میں صرف تغیر کوہی ثبات حاصل ہے۔ نشیب و فراز، بننا بگڑنا، آنا جانا ، پانا کھونا، اس دنیا کی اٹل حقیقتیں ہیں۔ ہر لہر نے فراز کے بعد نشیب کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے، کہ یہی قانون ِ فطرت ہے۔بپا ہونے والے ہنگامہ ٴ فردا میں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ شریف برادران کے ہاتھ سے وقت کی طنابیں سرک رہی ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی کی گھنٹی بج چکی ہے، یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ اس وقت جب کہ ایک صبح ِ نو طلوع کے مراحل میں ہے، پرانی تاریخ کا صفحہ پلٹنا تباہ کن ہوگا۔ اب یہ دیکھا جانا ہے کہ کیا گیارہ مئی کی شام کو کوئی سجری سویر طلوع ہوتی ہے یا سلسلہ ٴ روز شب پرانے حادثات کا ہی نقش گر ثابت ہوتا ہے۔
تازہ ترین