• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تبصرہ نگاروں کی رائے میں گیارہ مئی کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے کانٹے دار الیکشن ہونے والا ہے، تاہم اس انتخابی معرکے کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزر کر آگے آنے والی سیاسی جماعت کے لئے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہی مسائل کا ایک اژدھا موجود ہوگا۔ایسے میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ان انتخابات میں کوئی ایک سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتی ہے یا نہیں…اور اگر کوئی سیاسی جماعت بھی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر وہ کون سی دویا اس سے زائد جماعتیں ہیں جو مل کر حکومت سازی کے عمل میں شریک ہو ں گی۔ ہمارے سیاسی معاشرے میں اگرچہ کسی کے ساتھ اقتدار شیئر کرنے کا رواج کچھ زیادہ عام نہیں ہے لیکن پھر بھی پچھلے دور حکومت میں ایک ایسی مخلوط حکومت دیکھنے میں آئی تھی کہ جس میں کسی نہ کسی وقت پارلیمنٹ میں موجود ہر جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ رہی تھی۔ پہلے پہل مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم ،جے یو آئی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہیں اور پھر مسلم لیگ کے اپوزیشن میں چلے جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ق کو اپنا اتحادی بنا لیا۔ اس سے پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومت کی عمر تو ضرور دراز ہوئی، پارلیمنٹ نے بھی اپنی مدت پوری کی لیکن اس مخلوط حکومت میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے مختلف ہونے کے باعث بہت سے قومی نوعیت کے ایسے مسائل تھے جن کے حل ہونے کی امیدیں مفاہمتی حکومتی پالیسی کی نظر ہو گئیں۔البتہ آئینی ترامیم پر ساری سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا۔
آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتیں انتخابی معرکے کو سر کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گی، اس عمل میں جہاں اپنی پالیسوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کیا جائے گا وہیں ایک دوسرے کی برائیوں کو بھی خوب اچھالا جائے گا۔ ایسے میں جب سیاستدان اقتدار کی مسند کو حاصل کرنے کی تگ ودو کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے لئے انتخابی مقابلہ بعض اوقات ذاتی د شمنی کی حد تک چلا جاتا ہے بعدازاں جب یہی سیاسی جماعتیں ایوان میں پہنچ کر کسی مخلوط حکومت کا حصہ بنتی ہیں تو وہ اپنی انتخابی لڑائیوں کو پس پشت نہیں ڈال پاتیں اور ایک ایسی حکومت دیکھنے کو ملتی ہے جو آر جی ایس ٹی سے لے کر بہت سے دیگر اہم امور پر کوئی فیصلہ اس لئے نہیں کر پاتی کہ اس کے اپنے اتحادی اسے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دیتے ہیں۔گو سیاسی نظام میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ ہی اس خطرے کا شکار رہتی ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ناخوش کرنے کی صورت میں ان کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے لیکن پھر بھی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں مخلوط حکومتیں نہ صرف ملکی مسائل حل کرنے کے لئے اہم فیصلے کرتی ہیں بلکہ قومی سلامتی کے فیصلوں کے لئے بعض اوقات اپنی پارٹیوں کے منشور سے ہٹ کر فیصلے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی ترقی یافتہ ممالک میں موجود مخلوط حکومتوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے اختلافات کوانتخابی میدان میں ہی چھوڑ کر پارلیمنٹ میں جانا ہوگا۔
یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں اپنی کامیابی کے امکانات کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتیں بلندوباگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں لیکن پچھلے دو انتخابات کے ووٹر ٹرینڈ اور مختلف سروے کرنے والے ادراروں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں کوئی ایک سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کر پائے گی۔ گو کہ اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والے کچھ زیادہ ہی پر یقین دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان تحریک انصاف شاید اپنی بہترین کارکردگی کے باجود بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل کرنے کے لئے اپنی پچھلی کاکردگی سے کئی سو گنا زیادہ اچھی انتخابی کارکردگی دکھانا پڑے گی ۔۔۔ میری رائے میں عمران خان کے سونامی کے لئے بھی صفر سے ایک سو چھتیس تک کی واضح اکثریت کا سفر شاید ممکن نہیں ۔
عمران خان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن بھی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی دعویدار ہے، مسلم لیگ ن نے 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا ساتھ دیا تھا لیکن پھر اپوزیشن میں چلی گئی اور ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی مدد سے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ستائیس اپریل تک تو یہ صورتحال نظر نہیں آتی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے بھی آئندہ انتخابات میں واضح اکثریت لینا ممکن ہو گا… ظاہری طور پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل کرنے کے لئے اپنی سابقہ انتخابی کارکردگی کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن شاید وفاق میں اپوزیشن ہونے اور صوبہ پنجاب میں حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھا کر اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کر لے گی ، ایسے میں چند ووٹوں کی خاطر ہی سہی مسلم لیگ ن کو کسی نہ کسی جماعت سے اتحاد کرنا ہی پڑے گا کیونکہ اس بار تحریک انصاف کا فیکٹر جو ماضی کے انتخابات میں نہیں تھا فرق ضرور ڈالے گا۔
پیپلز پارٹی اب بھی وفاق میں ایک مضبوط جماعت کے طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرے گی، ایم کیو ایم کی کراچی پر گرفت تاحال مضبوط ہے، مسلم لیگ ق بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بعد ایک نئے جوش اور ولولے سے میدان میں اتر پڑی ہے اور اے این پی بھی دھمکیوں کے باوجود اپنی بقا ء کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اسی لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ان انتخابات کے بعد انتخابی مرحلے میں پیدا ہونے والے کھچاؤ ، نوک جھونک اور اختلافات بھلا کر پاکستان کی بہتری کی خاطر اکٹھے ہونے کو کسی کی ہار یا جیت نہ سمجھیں۔ ہمیں اس وقت ایک ایسے حکومتی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو کہ مشکل مسائل کے بارے میں ٹھوس اور جامع پالیسی سازی کر سکے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ ہمارے سیاستدان انتخابات میں اختلافات کی شدت کو اس قدر نہ بڑھا لیں کہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنا نا ممکن ہو جائے …کیونکہ اگر ایسا ہوا تو نقصان صرف پاکستان کے عوام کا ہوگا۔
تازہ ترین