• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی عدم توجہی کے سبب منچھرجھیل بےکار ہوگئی


حکومتی عدم توجہی کے سبب ملک میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ’منچھر‘ تباہ ہوگئی، جھیل کو آلودہ اور زہریلے پانی سے بچانے کے لیے کئی سال پہلے آر بی او ڈی منصوبہ تعمیر کیا گیا تھا جو فعال ہونے سے پہلے ہی بند کردیا گیا۔

سندھ کے ضلع دادو میں منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ تھی اس لیے کہ یہ اب کھارے اور زہریلے پانی کا ذخیرہ بن گئی ہے۔ اس میں نہ اب مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے، نہ ہی یہ اطراف کی زمینوں کو سیراب کرنے کے قابل ہے۔

حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے منچھر جھیل کے اطراف آباد ماہی گیر بھی متاثر ہوئے ہیں اور زیر آب دیہات سے نکل کر بچاؤ بند پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود ماہی گیر صدام اور دوسرے خوش ہیں کہ جھیل میں تازہ پانی آنے سے اب مچھلیوں کی پیداوار بڑھ جائے گی اور کچھ دن انہیں پینے کے قابل پانی مل جائے گا۔

ماہرینِ کہتے ہیں ماہی گیروں کی یہ خوشی عارضی ہے کیوں کہ برسوں بعد آنے والا سیلابی پانی بس کچھ ہی دن منچھر جھیل میں زندگی کو بحال رکھ سکے گا۔ اس کے بعد یہ جھیل پھر زہریلی اور مردہ ہوجائے گی۔

سیلابی پانی کے علاوہ منچھر جھیل میں تازہ پانی پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں لیکن آر بی او ڈی سیم نالے کے ذریعہ زہریلا پانی سال کے بارہ مہینے منچھر جھیل میں ڈالا جارہا ہے۔

جھیل کے زہریلے پانی نے ماہی گیروں کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ بڑے ہوں یا بچے سب جِلد، گردوں اور جگر کی بیماریوں سمیت کسی نہ کسی مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔

پہلے مچھلی کی قیمت اچھی مل جاتی تھی لیکن جب سے جھیل زہریلی ہوئی ہے، مچھلی ناقص اور کم قیمت ہوگئی ہے۔

اس کے علاوہ سیاسی طاقت کے حامل ٹھیکیداروں کا ظلم روکنے والا بھی کوئی نہیں، بلکہ حد تو یہ ہے کہ سیلابی پانی کے ساتھ آنے والی مچھلی کو جھیل تک پہنچنے سے پہلے ہی جال لگا کر شکار کرلیا جاتا ہے۔

قرض نے بھی ان ماہی گیروں کا جینا مشکل کر رکھا ہے، زندہ رہنے کے لیے قرض لیتے ہیں اور پھر ان کی ہی نہیں ان کی اولادوں کی زندگی بھی قرض دینے والے ٹھیکداروں کی غلامی میں گزرتی ہے لیکن قرض ادا نہیں ہوتا۔

عدالتوں نے نوٹس لیا، حکومتوں نے اعلانات کیے لیکن ملک میں میٹھے پانی کے اس سب سے بڑے ذخیرے کی بے توقیری متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تازہ ترین