• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کمیٹی، سرکاری ٹی وی سے پاکستان کا غلط نقشہ نشر کرنیکا جائزہ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ / بلال عباسی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں سرکاری ٹی وی پر پاکستان کا غلط نقشہ نشر کرنے کا جائزہ لیا گیا جبکہ سینیٹر مصدق ملک کے حوالے سے انکوائری رپورٹ نہ دینے اور افسران کی عدم حاضری پر ارکان نے سخت برہمی کا اظہارکیا ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا تعلق ان کی میڈیا پالیسی سے جڑتا ہے، مطیع اللہ جان اور دیگر صحافیوں کی گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، اگر اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں صحافی کے اغواء کا معاملہ نہیں سنا جا سکتا تو میں کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کرتا ہوں۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر انوارالحق کاکڑ، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، پرویز رشید، مصدق مسعود ملک، سجاد حسین طوری، سیکرٹری اطلاعات ونشریات اکبر حسین درانی، ایم ڈی پی ٹی عامر منظور، ڈی جی پی آئی اواور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر مصدق ملک کے معاملے کے حوالے سے ایک انکوائری رپورٹ طلب کی تھی وہ فراہم نہیں کی گئی ۔وزارت اطلاعات و نشریات ڈی جی پی آئی او کی انکوائری رپورٹ کمیٹی کو فراہم کرے۔ اس معاملے کے حوالے سے جن افسران کو طلب کیا گیا تھا وہ بھی کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔چیئرمین و اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کر تے ہوئے آئندہ اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کا غلط نقشے کے حوالے سے دو پروگراموں کو پانچ دفعہ دکھایا گیا مگر کچھ لوگوں کو وارننگ لیٹر جبکہ دیگر کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ۔ سینیٹر انوار الحق نے کہا کہ سرکاری ٹی وی ہیڈ مارکیٹنگ کو گزشتہ اجلاس میں بھی طلب کیا گیا تھا اگر آئند ہ اجلاس میں وہ نہ آئے تو اُن کے خلاف سمن جاری کرایا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری ٹی وی اپنے مانیٹرنگ سسٹم کو بہترکرے ۔ہم عوامی نمائندے ہیں اور اس واقعہ سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔ اجلاس کے دوران سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ میں نے سابقہ اجلاسوں میں مطیع اللہ جان کے اغوا اور میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا تھا ان دونوں واقعات پر تحفظات ہیں لیکن کمیٹی کے منٹس سے یہ ایشو غائب ہو گیا ہے۔ آئندہ اجلاس میں مطیع اللہ جان اور حکام کو بھی بلایا جائے۔ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کا تعلق ان کی میڈیا پالیسی سے جڑتا ہے، مطیع اللہ جان اور دیگر صحافیوں کی گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں آزادی رائے کے حق کو ختم کیا جا رہا ہے، ان واقعات سے مجھے شدید تکلیف ہو رہی ہے، اور مجھے ملک میں آمریت نظر آ رہی ہے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ صحافی مطیع اللہ جان، صحافی ابصار عالم اور کراچی کے ایک صحافی جس کو ایک دن جیل میں رکھا گیا انہیں کمیٹی میں سنا جائے۔ سینیٹر پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ سرکاری ٹی وی پر ایک خبر نشر نہیں کی گئی تھی مگر اُس خبر کی تردید سرکاری ٹی وی پر چلائی گئی۔اس سے پہلے سرکاری ٹی وی پر کتنی خبروں کی تردید چلائی گئی ہے جو سرکاری ٹی وی پر خبر نشر ہی نہیں ہوئی تھی اُن کی تفصیلات دی جائے۔ جس پر سرکاری ٹی وی حکام نے کہا کہ ایک ماہ میں رپورٹ فراہم کر دی جائے گی۔پرویز رشید نے کہا کہ احمد نورانی کی خبر کی تردید تو بہت زور و شور سے نشر کی گئی تاہم خبر نشر نہیں کی گئی اور نا ہی تردید پر صحافی کے جواب کو نشر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگ رہا تھا کہ نئے ایم ڈی سرکاری ٹی وی کے آنے اور ان کی نئی ٹیم کے آنے سے حالات بہتر ہو چکے ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پرویز رشید نے کہا کہ ایک صحافی کو اغوا ء کیا گیا ایجنڈے میں اس معاملے کو شامل کیا جائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ اجلاس میں اٹھایا جائے چیئرمین کمیٹی معاملہ متعلقہ کمیٹی کو ریفر کر دیں گے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ اگر اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں صحافی کے اغواء کا معاملہ نہیں سنا جا سکتا تو میں کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کرتا ہوں، مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کمیٹی میں جگہ کم ہو گئی ہے اور برداشت ختم ہو گئی ہے، پرویز رشید کے اجلاس سے جانے پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید، رکن کمیٹی غوث محمد نیازی نے پرویز رشید کو اجلاس میں بیٹھنے کے لیے روکا تاہم وہ اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔

تازہ ترین