• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا میں فرعون کی طرح کے انسان اور ممالک ظلم برپا کئے ہوئے ہیں جو طاقت کے بل اپنے ہر عمل کو دوسرے انسانوں کو درست مان لینے پر مجبورکرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ دنیا میں اب طاقت کے اوزار بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ طاقتور ممالک اب بڑی فوج کے ساتھ بحری بیڑے، اڑتے ہوئے تباہ کن طیاروں، ایٹم بموں، میزائلوں، کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں سے آگے بڑھ کر اب موسم کے تغیر سے دشمن کو زیر کرنے یا کسی کی طاقت کو منجمد کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہوکر مخالف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی ذہن کو قابو کرنے کی مسمریزی شعاعیں بھی ایجاد کی جاچکی ہیں اور خلاء کو ایٹمی ہتھیاروں سے بھرنے کا عمل امریکہ نے شروع کر رکھا ہے تاکہ مقابلہ کرنے کیلئے کسی دوسرے ملک خصوصاً روس اور چین کو خلا میں جگہ نہ ملے تاہم چین نے 11 جنوری 2007ء میں اپنے ہی ایک موسمی سیارچہ کو تباہ کرکے امریکہ کے لئے خطرہ کا الارم بجا دیا ہے کیونکہ یہ صلاحیت امریکہ کے پاس موجود نہ تھی جو اس نے چینی سیارچہ کی تباہی کے 9 ماہ بعد حاصل کی۔ چینی سیارچہ 750 کلوگرام کا تھا۔
اب خلا یا مسلسل وسعت یا وسعت مکانی اس وقت عالمی طاقتوں کے درمیان اپنے اپنے تحفظ کیلئے اہم بنتا جارہا ہے۔ امریکہ اِس سلسلے میں چین سے گفت و شنید کرنا چاہتا ہے جبکہ چین کا مطالبہ ہے کہ وہ بیرونی وسعت مکانی کو ملٹری اسلحہ سے آلودہ نہ کرے اور اس پر باقاعدہ معاہدہ کرے جس سے امریکہ گریز کررہا ہے۔ وہ گفتگو کرنا چاہتا ہے مگر معاہدہ نہیں کیونکہ وہ خلا کو اپنی جاگیر سمجھنے لگا ہے، ویسے بھی اُس کے بہت سے ہتھیار خلا سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ X37B خلائی جہاز، میناتور 4 میزائل، انٹیلی جنس نظام موسمی تغیراتی ہتھیار، متحرک سگنل کو منجمد کرنے کی صلاحیت اور انسانی ذہن کو قابو میں کرنے کی شعاعیں اور دیگر۔ اب اگر چین کسی جنگ میں یا غلطی سے اِن سیارچوں کو نشانہ بنا دیتا ہے تو امریکی جدید دفاعی صلاحیت مفلوج ہوجائے گی۔ اس لئے امریکا کے وزارت خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری فرینک روز نے 11 اپریل 2013ء کو کہا کہ چند سالوں سے امریکہ اور چین کے درمیان خلائی سیکورٹی پر مذاکرات کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور امریکہ نے خلا کو اپنے تحفظ کو دائرہ کار میں لاکر چین کے ساتھ گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس خلائی تحفظ کے معاملہ میں گفتگو شروع کرسکیں گے۔ فرینک روز نے یہ گفتگو امریکہ کی خلائی انڈسٹری کے مالکان سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔امریکہ چین کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا ہے کہ اُسے دس سال سے یا پچاس سالوں تک رتی برابر خطرہ ہو۔ اب چین کے سٹیلائٹ تباہ کرنے کی صلاحیت نے اُس کی نیندیں حرام کردی ہیں اگرچہ چین نے تو صرف اپنا ہی سیارچہ تباہ کیا تھا۔ اس لئے امریکہ چین سے رابطہ رکھ کر اس کے پروگرام کی کڑی نگرانی کرنے کا خواہشمند ہے۔ وہ چین کو اٹکائے اور الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی انٹیلی جنس برادری دفتر خارجہ سے زیادہ پریشانی کا شکار ہے کیونکہ ان کا زیادہ تر انٹیلی جنس نظام سیارچوں کا مرہون منت ہے اور انہیں یہ فکر ہے کہ چین کوئی ایسی گڑبڑ نہ کردے جس سے اُن کی بہت ہی حساس تنصیبات اور سیارچوں کو قابو کرنے کا نظام بگڑ جائے۔
امریکی حساس اداروں کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس معتبر اطلاعات موجود ہیں کہ چین کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اس نے 2007ء میں عملی مظاہرہ کیا تھا۔ چین امریکہ کے ان سیارچوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جو خلا میں زیادہ اونچے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ وہ اُن کو منجمد بھی کرسکتا ہے، اپنے میزائلوں سے تباہ کرسکتا ہے تاہم چین نے اب تک نچلے دائرے میں کافی تجربات کرکے اپنی کم تر صلاحیتوں کا اظہا ر کیا ہے۔
چین نے اپنا جو موسمی سیارہ تباہ کیا اس کا کل وزن 750 کلوگرام تھا، امریکی کہتے ہیں کہ اس سے جو خلا میں کافی کچرہ پھیلا وہ امریکی سیارچوں کے کافی قریب آگیا ہے اور امریکی حکام اپنی حکومت پر دباوٴ ڈال رہے ہیں کہ وہ چین کو متنبہ کرے کہ اس وجہ سے ٹکراوٴ کے امکان بڑھ جائیں گے۔ امریکا اس سلسلے میں روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ اسی قسم کے مذاکرات چین سے کرنے کا خواہاں ہے اور وہ طویل المدتی مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے جبکہ چین ان مذاکرات کو ٹال کر اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ بظاہر وہ مذاکرات پرآمادگی تو ظاہر کررہا ہے مگر اسے التوا میں ڈالنا اور وقت کا حصول چین کی پالیسی کا حصہ لگتا ہے تاکہ وہ بہتر پوزیشن میں آکر امریکہ سے مذاکرات کرے۔دُنیا کے کئی ممالک خلا میں اپنا مستقر بنا رہے ہیں، پاکستان کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف ایٹم بم بنا کر اتراتا پھر رہا ہے وہ بھی اتنا کہ اپنے سائنسدانوں کو امریکا کے کہنے پر مقید کردیا اور سائنسی برادری کو مایوسی کا پیغام دیا جبکہ امر واقعہ تو یہ ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، جس کی تلاش پاکستان کیوں نہ کرے۔ وہ اس وقت کرسکتا ہے جب ہمارے پالیسی ساز اداروں کی نگاہ میں وسعت آئے۔ وہ تنگ نظری اور ایٹمی صلاحیت کو آخری اسلحہ تصور نہ کریں بلکہ اب یہ بات زیربحث ہے کہ ایٹم بم کی فریکوئنسی کو منجمد کردیا گیا تو اس اسلحہ کا کیا فائدہ۔ تو آگے بڑھنا چاہئے اور سائنسی میدان میں تو زیادہ آگے کی طرف بڑھنا چاہئے، سارے سائنسدانوں کو کسی نہ کسی کام میں لگا دینا چاہئے اُن کو کالم لکھنے یا رسوا کرنے کیلئے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
تازہ ترین