• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈکٹیٹر انصاف کے کٹہرے میں ہوتا ہے تو اس وقت اسے توہین کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ذلت گہرے گھاؤ لگاتی ہے لیکن کوئی اس سے ہمدردی کرنے والا نہیں ہوتا۔ کبھی خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کا جم غفیر جو ہر وقت پرویز مشرف کو گھیرے رکھتا تھا لیکن انہیں اب دکھ بانٹنے کیلئے کوئی دستیاب نہیں۔ وہ ریاستی مشینری جو ان کے اشارہٴ ابرو پر احکام بجالاتی تھی آج انہیں جکڑنے کے عمل میں مستعد ہے۔ چک شہزاد کا وہ محل جو انہوں نے بڑے چاؤ سے بنایا تھا آج ان کے لئے قید خانہ ہے۔ وہ اس رہائش گاہ سے باہر جاسکتے ہیں اور نہ فون اور انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔ من پسند کھانا کھانے کیلئے بھی انہیں جیل افسر کی اجازت کی ضرورت ہے۔ ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے اہل خانہ سے ملنے کیلئے انہیں اجازت درکار ہے۔ ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہے۔ بیرونی دوستوں نے ان کے مسئلہ کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قراردے کر مداخلت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں کو شخصیات سے بالاتر ہوکر دیکھتا ہے۔ وکلاء اور عوام ان کے تعاقب میں ہے۔ یوں پرویز مشرف آج مکافات عمل کی زد میں ہیں، تنہا اور بالکل تنہا۔ یہی مکافات عمل کا قرینہ ہے۔
صرف مطلق العنان ڈکٹیٹر ہی وہ واحد زنجیر نہیں جو میرے ملک کو جکڑ رہی ہے،جمہوریت میں اس سے بھی بڑی اور نزدیک کی زنجیر ہے۔امریکی جمہوریت کو اپنا گھوڑا قرار دیتے ہیں اور جس کی لگام امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اس میں خیر ڈھونڈنے والوں کو پچھلے پانچ سالوں کا بھی جائزہ لینا چاہئے جو بغیر سوچے اگلے پانچ سال کیلئے جمہوریت اور مزید جمہوریت کا ڈھول بجائے جارہے ہیں الیکشن کے بعد کے منظرنامے کا تصور کریں تو منو بھائی کی ایک مکالماتی پنجابی نظم یاد آجاتی ہے…کیہہ ہوئیا اے؟…کچھ نہیں ہوئیا…کیہہ ہووے گا…کچھ نہیں ہوناں…کیہہ ہوسکدا اے…کچھ نہ کچھ تے ہوندا ای رہندا اے…جو تو چاہنا ایں، اوہ نہیں ہوناں…ہو نہیں جاندا…کر ناں پیندا اے…مسئلہ یہ ہے کہ اسکروٹنی یعنی چھان بین سے گزر کر اس وقت جو انتخابی نمائندے انتخابات کے مرحلے تک آئے ہیں یہ وہ فرشتے ہیں جن کے مقدس مقاصد اور ایمانداری ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ یہ جمہوریت کے مطلب کے لوگ ہیں۔ جمہوریت ان کے ساتھ بخوبی گھر بسا سکتی ہے۔ ان کے غیرقانونی طریقوں سے دولت کمانے اور بیرون ملک منتقلی سے ملک کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کیلئے کیلکولیٹر کی نہیں سپر کمپیوٹر کی ضرورت ہے لیکن قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے جو لوٹ مار کی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے اقتدار چھوڑنے سے پہلے اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر تقسیم کر دیئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی مراعات میں دگنا اضافہ کر دیا گیا۔ نواز شریف،شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی سیکورٹی پر سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات ہیں جبکہ مبینہ طور سرکاری گاڑیاں اب بھی ان کے زیر استعمال ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سیکورٹی پر قوم کے تقریباً سولہ کروڑ روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ وہ انتہائی مہنگے حکمران ہیں جنہیں ہم دوبارہ منتخب کرنے جارہے ہیں۔ عمران خان ذاتی کردار میں اجلے ہیں لیکن اس جمہوریت میں رہ کر وہ بھی کوئی کارخیر انجام نہیں دے سکتے۔ وہ اس ملک سے نوّے دن میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ تو ضرور کر سکتے ہیں لیکن شاید وہ بھی ایسا کر نہیں سکیں۔ ان کے پاس بھی اب تک دعوؤں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔رائے عامہ کا احترام جمہوریت کے علمبرداروں کی اولین ترجیح ہے بشرطیکہ رائے عامہ جمہوریت کے علمبرداروں کے احترام میں اسلام کو ترجیح نہ دے۔ امریکہ کو ان دینی سیاسی جماعتوں پر کوئی اعتراض نہیں جو اسلام بذریعہ جمہوریت نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ اسلام اور جمہوریت کو ایک ساتھ لیکر چلنے میں ان دینی سیاسی جماعتوں کی حالت اس شخص جیسی ہوگئی ہے جو دفتر سے لیٹ ہوگیا تھا،کسر نکالنے کیلئے وہ تیز تیز چلنے لگا لیکن تھوڑی دیر بعد لنگڑانے لگا۔ سامنے سے ایک ملنے والا آتا نظر آیا تو اس نے ملنے والے سے کہا ”نہ جانے کیا بات ہے دفتر جلدی جانا ہے مگر میں تو لنگڑانے لگا ہوں“۔ دوست نے کہا”بھئی آپ یا تو سڑک پر چلیں یا فٹ پاتھ پر۔ دونوں پر ایک ساتھ چلیں گے تو لنگڑا پن تو ہو گا“۔ ہمارے نوجوانوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا ہے وہ جمہوریت کی تنگ فٹ پاتھ کے بجائے اسلام کی کشادہ شاہراہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے نوّے فیصد نوجوان اسلام کا شرعی نظام چاہتے ہیں جبکہ صرف 13 فیصد نے جمہوریت کو پسند کیا ہے۔ دینی سیاسی جماعتیں اکیلی رہ گئی ہیں جبکہ پاکستان کے نوجوان ان سے بہت آگے نکل گئے۔ درحقیقت اسلام ہی پاکستان کا مستقبل ہے نہ کہ جمہوریت۔
تازہ ترین