• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وبا کے دنوں میں گھر سے کام کرنے کے چند اصول

تحریر:وسیم عباس طور ۔۔۔مانچسٹر
 کورونا جیسی عالمی وبا نے لوگوں کا طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ مستقل طور پر نا سہی لیکن ایک لمبے عرصے تک امور زندگی میں اک بے ترتیبی ہی رہے گی۔ اب سماجی روابط سے لیکر دفتری امور کی انجام دہی کے لئے سب کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ سکول، دفتر حتی کہ ڈاکٹر سے میڈیکل چیک بھی آن لائن ہو چکا ۔برطانیہ سمیت دنیا بھر میں باہر جانے سے لیکر کھانا کھانے حتیٰ کہ سانس لینے تک کے نئے ضابطے اپنائے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں مارچ میں لگائے گئے لاک ڈاون کیساتھ ہی دفتروں میں کام کرنے والے شہریوں کو گھروں سے کام کرنے کا کہہ دیا گیا تھا، برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں بتدیج نرمی کر دی گئی ہے لیکن دفتروں میں کام کرنے والے لوگ ابھی تک گھروں سے ہی کام کر رہے ہیں، گھر سے کام کرنا بظاہر تو بہت سہل لگتا ہے کیونکہ جلدی جاگنے کا مسئلہ، نا سجنے سنورنے کا جھنجٹ اور نا ہی بھاگتے بھاگتے بس یا ٹرین پر سوار ہونے کی پریشانی۔ لیکن کیا واقعی گھر سے کام کرنا آسان ہے ؟؟ تو اسکا جواب ہے " بلکل نہیں" یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ انسان اور اسکی نفسیات پر تحقیق کرنے والے محقق کہہ رہے ہیں۔ اصل میں ہر روز صبح سے شام تک گھر سے کام کرنا اور پھر تھک ہار کے اسی ماحول میں آرام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ تو ایسے لگتا ہے جیسے بندہ سونے کے علاوہ ہمہ وقت صرف دفتری امور ہی سر انجام دے رہا ہے۔ اس لئے اگر آپ گھر سے ہی دفتری کام کرنے والے افراد میں سے ہیں تو اپکو اس یکسانیت اور مسلسل ایک جیسے لائف سٹائل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی بہت زیادہ محنت اور کاوش کی ضرورت نہیں ہے بس چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اپ بوریت اور اس کے ذہنی اور جسمانی اثرات کو کافی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ کورونا کی آمد کے بعد واٹس ایپ ویڈیو کال، زوم اور دیگر سوشل میڈیا فورمز کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ آن لائن میٹنگز اور انٹرویوز کرنے والے افراد کو کئی گھنٹے اپنے کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے گزارنے پڑتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق بہت زیادہ دیر تک آئن لائن بات چیت یا میٹنگز کرنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ آن لائن بات چیت کے دوران لوگوں کی بات، تاثرات الفاظ اور آواز کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، جس کے لئے بہت زیادہ یکسوئی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں کئی گھنٹے آن لائن میٹنگز جاری رکھنا ایک تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے۔ کیونکہ آن لائن میٹنگز کے دوران اپ کو سکرین کے سامنے ایک مخصوص پوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے اوراپ ازادانہ حرکت بھی نہیں کر سکتے جس کا نتیجہ اخر میں تھکاوٹ اور ذہنی دباؤ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ چونکہ کورونا کے جانے کا کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا جا سکتا اس لئے اب کورونا سے مرنےکے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ جینا بھی سکیھنا ہوگا۔ اس لئے آپ خواہ دفتری کام کر رہے ہوں، کسی آن لائن میٹنگ میں شرکت کرنے جا رہے ہوں یا کئی گھنٹوں کے لئے سکول کالج وغیرہ کا کام کرنے لگے ہوں بس چند باتوں یا اصولوں کو ذہین میں رکھ کر بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں ماہرین کہتے ہیں کہ آن لائن میٹنگزمیں جانے سے پہلے اپنی باڈی کو مکمل طورپر ریلکس کریں۔ کچھ دیر کے لئے اپنے ذہن کو تمام خیالات سے خالی کرنے کی کوشش کریں تاکہ اپ مکمل طور پر پر سکون ہو سکیں۔ عمومی طور پر دفتر میں بھی آپ آٹھ یا دس گھنٹے مسلسل کام نہیں کرتے وہاں بھی چائے کافی کی بریک لی جاتی ہے اس لئے آن لائن میٹنگز کے دوران بھی اگر آپ کو ٹھوڑا سا وقفہ مل جائے تو کوئی نا کوئی مشروب ضرور استعمال کریں۔ ایک تحقیق کے مطابق وال کرنے سے سٹریس میں کمی واقع ہوتی ہے اس کام کے دوران پانچ یا دس منٹ کے لئے اپنے گھر کے صحن یا گلی میں جا کر چہل قدمی ضرور کریں۔ پانچ منٹ کا چلنا اور تازہ ہوا اپکو بلکل تروتازہ کر دے گی۔ اگر اپ گھر سے کام کر رہے ہیں تو پھر بھی کام کے مستقل اوقات کار مرتب کریں تاکہ اپکا دفتری کام اپ کی ذاتی زندگی میں شامل نہ ہو جائے۔ ہمارے استاد اور سینئر صحافی جو پاکستان کے معروف انگریزی اخبار کے ایڈیر تھے، برطانیہ میں قیام کے دوران جب بھی اخبار کے لئے کام کرنے بیٹھتے پہلے مکمل تیار ہوتے حتی کہ باقاعدہ شیو بناتے اور دفتر کے لئے لباس پہنتے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ اس طرح جب کام سے فراغت کے بعد بندہ لباس تبدیل کرتا ہے تو کام کی تھکن بھی دفتری لباس کیساتھ ہی اتر جاتی ہے۔ اگر اپ کے پاس دفتری کام کے لئے کوئی مخصوص کمرہ نا ہو تو اپنے اسی کمرے کی سیٹنگ کو ضرور تبدیل کریں۔جیسا کہ کرسیوں اور ٹیبل کی جگہ تبدیل کرنا وغیرہ، ماہرین کہتے ہیں کہ ایک پوزیشن میں زیادہ دیر بیٹھے کی صورت میں اپ کمر کے درد کا شکار ہو سکتے ہیں اس لئے بیٹھے کے لئے ہمیشہ ارام دہ کرسی کا انتخاب کریں۔ ہمیشہ کھڑکی کے پاس بیٹھیں تاکہ کمپیوٹر کی سکرین سے نظریں ہٹا کر تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے باہر کے منظر کو دیکھ سکیں۔ کووڈ 19 کے ڈر اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل نے معاشرے پر گہرے اثرات ظاہر کئے ہیں۔ مغربی ممالک میں جس طرح کی چھوٹی رہائشیں ہیں ان میں بند ہو جانا کسی نفسیاتی مرض سے کم نہیں ایسے میں ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کیا خیال رکھنا ہوگا تاکہ ان منفی اثرات سے خود کو اور اپنی فیملی کو بچا سکیں۔ بظاہر یہ بہت ہی معمولی باتیں ہیں لیکن انسانی نفسیات پر تحقیق کرنے والے کہتے ہیں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کے موڈ کو خوشگوار بنا سکتی ہیں۔  
تازہ ترین