• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ایک سے زیادہ موضوعات رڑک رہے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ بری طرح چبھ رہے ہیں مثلاً سب سے زیادہ چبھن اور رڑکن تو الیکشن سے ہی محسوس ہو رہی ہے۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تویہ الیکشنز کی تاریخ کے سب سے مضحکہ خیز الیکشن ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کون کیاہے؟ اوریہ بھی جانتے ہیں کہ 63,62 کی تعریف کیا ہے تو سارے امیدواروں کی تعداد سامنے رکھیں تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی معاشرے میں ہم جتنے ”اولیا“ کہیں اورنہیں پائے جاتے کہ ہماری 63,62 تو کسی طرح پل صراط سے کم نہیں سو اگر تھوک کے بھاؤ امیدوار اس معیار پرپورے پائے گئے اور پار اترگئے تو بیشک … ”ہم سا ہو تو سامنے آئے“ مجھ جیسے گنہگاروں کے فرشتہ نمائندے!
دوسرے زاویئے سے دیکھیں تو یوں محسوس ہوتاہے کہ …
یہ الیکشن زردی کے بغیر انڈہ ہے۔
آلوہنڈیا میں ڈال کر ”نہاری“ بنانے کی تیاری ہے۔
چکنی مٹی سے پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔
پانی سے کار چلانے کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔
دلہن کو سیاہ لباس پہنا کر کانٹوں کی سیج پر بٹھایا جارہا ہے
بے پیندے برتن میں پانی سٹور ہو رہا ہے۔
بنیادوں میں نمک ڈال کر جمہوری عمارت کی دیواریں اٹھائی جارہی ہیں۔
دستہ کی بجائے دوسری یعنی الٹی طرف سے تلوار پکڑ کر شمشیرزنی کے جوہر دکھائے جارہے ہیں۔
سبحان اللہ… کیسے لوگ ہیں جو بغیر فٹ بال کے فٹ بال میچ کرانے چلے ہیں یا یوں سمجھئے کہ بغیر وکٹوں کے کرکٹ میچ کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ تین مین سٹریم اہم ترین سیاسی پارٹیوں کی شرکت، شراکت، شمولیت کے بغیر یہ دھندہ یا دھاندلی نہیں تو اور کیاکہلائے گا؟ تیسری عالمی جنگ میں بھی الیکشن ہوسکتے ہیں۔ بالکل درست لیکن تین ا ہم ترین پلیئرز کے بغیر… نہ پیپلزپارٹی نہ ایم کیو ایم نہ اے این پی تو کہاں کے الیکشن اور کیسے الیکشن؟ تین صوبوں میں سہم اور سناٹے کا راج ہے تو کیا صرف پنجاب تک محدود الیکشن کو ہی پورے پاکستان کا الیکشن سمجھا جائے گا؟ اس کے سائیڈ او ر آفٹرافیکٹس اچھی طرح سوچھ سمجھ لو… پوری طرح قائل ہوجاؤ تو کرگزرو اور دھیان میں رہے کہ الیکشن خود کوئی شے نہیں، الیکشن منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کا رستہ ہوتے ہیں اور اگر یہ رستہ ہی منزل کی بجائے کہیں اورپہنچا دے تو… پھر نہ کہنا
”ہمیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے“
دوسری چبھن کا تعلق براہ راست شہباز شریف کی تقریر کے اس جملے سے ہے کہ ”تیر اور بلے کو دفن کرنے کا وقت آ گیا“ جوش جذبات میںآ کر شہنشاہ جذبات یہ بھول گئے کہ بے جان نہیں صرف جاندار چیزوں کو ہی دفن کیاجاتا ہے کہ ان کی سڑاند، بدبو، جراثیم سارے ماحول کے لئے خطرنا ک ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر نوبت آئی تو شیر کو دفناناضروری ہوگا دوسری صورت میں کسی تجربہ کار ٹیکسی ڈرمسٹ سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ بھائی! اسے حنوط کردو تاکہ بطور ڈیکوریشن پیس اس سے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ پی ٹی آئی کی چڑھائی میں جیسے جیسے تیزی آتی جارہی ہے، ان کی فرسٹریشن میں اضافہ ہوتاچلا جارہا ہے جس کی انتہا یہ کہ بیٹے سے کہیں کم عمر کے بلاول کوبھی نہیں بخشااور بیان بازی میں لپیٹ لیا۔ جواباً بلاول بھی اگر وہی زبان بولنے لگا جوحمزہ صدر زرداری کے لئے بولتا رہا تو کسی کے بھی پلے کیا رہ جائے گا؟البتہ مشہور زمانہ باسٹھ تریسٹھ کو ضرور چار چاند لگ جائیں گے۔ ادھر لاہور کے 66 کے سابق بلدیاتی نمائندے بھی ن لیگ کے چٹختے ہوئے اعصاب پر آگرے ہیں۔ یہاں عمران کے لئے بھی یہ مشورہ کہ زندگی ون وے نہیں ٹو وے ٹریفک کا نام ہے اور احسان شناسی بھی اک عمدہ صفت ہے۔ جس مہربان دوست نے اس فیصلہ کن مرحلہ میں 66 تجربہ کار دست و بازو مہیا کئے اسے ہر قدم پر یاد رکھنا کہ زندگی Take & Take نہیں Give & Take کا نام ہے۔ Self centeredness بالآخر Self کے لئے سرطان سے بھی مہلک ثابت ہوتی ہے اورہر احسان فراموش اس مرض کامریض ہوتا ہے۔ یہ مرض بالآخر انسان کو تنہا کردیتاہے۔ Fred Allen کہتاہے
"The last time I saw him, he was walking down lover's lane holding his own hand."
Beecher نے کہا تھا…
"Conceit is the most incurable disease that is known to the human soul."
اورذہن پر پورا زور دینے کے باوجود مجھے یاد نہیں آ رہا کہ اس حوالے سے یہ کبھی نہ بھولنے والاجملہ میں نے کہاں پڑھا تھا لیکن یہ جملہ میری رو ح پر پیوست ہوچکا۔
"A conceited man has a sweling head and a shrinking brain."
سچ یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں میاں برادران کو بھی دراصل Self-centeredness کی سزا ہی بھگتنا ہوگی۔ یہ خود اپنے عشق میں مبتلا ہو کر توازن ہی کھو بیٹھے تھے یعنی وہی رویہ کہ کھمبا اورگدھا بھی کھڑ ا کردیں تو چلے گا۔
یہ رویہ احسان شناسی کو احسان فراموشی میں بدل دیتاہے جبکہ سیاستدان اسے لمبے عرصہ کیلئے افورڈ نہیں کرسکتا۔
آخری چبھن بہت ہی اداس کردینے والی ہے کہ میری بے حد پسندیدہ آوازوں میں سے ایک آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔ ریلیکس کرنے کے لئے میں نے چند نسخے ”ایجاد“کر رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک موسیقی ہے۔ شمشاد بیگم کے گیت مرے لئے امرت دھارا سے کم نہیں تھے۔ ایسی آواز سے کم از کم میرے کان آشنا ہیں۔ مادام گوگوش سے ام کلثوم تک اور نورجہاں سے لتا تک لاجواب و لازوال لیکن شمشاد کی دنیاہی اور تھی۔
”کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“
”کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر“
”میرے پیا گئے رنگون“
”پیپل جھومے میرے آنگنا ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں“
اپنی طلسمی آواز کی شکل میں شمشاد ابد تک زندہ رہے گی۔
تازہ ترین