• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے یہ ماحول قطعی طور پر سازگار نہیں ہے۔ یہ بات اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ ایسے ماحول میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلاتے رہیں گے اور انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت ایک سوالیہ نشان رہے گی۔ یہ صورتحال بالآخر جمہوری استحکام کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
انتخابی تشدد اور دہشت گردی کے متعدد واقعات میں تادم تحریر ملک بھر میں تقریباً 50/افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ تین سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ”طالبان“ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں عوام کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں شرکت نہ کریں۔ اب یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ ”طالبان“ کی طرف سے جو بیان جاری کیا جاتا ہے‘ وہ بیان اصل ہوتا ہے یا نہیں اور اگر اصل ہوتا ہے تو اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ یہ بھی آئی تھی کہ طالبان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ حالات یا واقعات کی ذمہ داری قبول کریں جبکہ ان حالات اور واقعات کے پس پردہ دیگر قوتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ملکی اور غیر ملکی غیر مرئی قوتوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے اور جہاں چیزیں وہ نہیں ہوتی ہیں جو نظر آرہی ہوتی ہیں‘ وہاں حالات کا حقیقی تجزیہ کرنا اس قدر آسان نہیں ہوتا ہے اور حقائق کی تہہ تک پہنچنا اس لئے بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کہ رائے عامہ کو بھی یہاں منظم طریقے سے گمراہ کرنے کی بھرپور کوششیں جاری رہتی ہیں۔ تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم نہیں چلا رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر اور مقبول سیاسی جماعت اب تک پورے ملک میں کوئی انتخابی جلسہ منعقد نہیں کرسکی ہے۔ میاں محمد نواز شریف سندھ میں جلسے منعقد کررہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اس صوبے میں بھی کوئی جلسہ یا اجتماع منعقد نہیں کرسکی ہے‘ حالانکہ سندھ اُس کی طاقت کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اپنی عوامی رابطہ مہم شروع نہیں کرسکے ہیں اور وہ وڈیو پیغامات کے ذریعے اپنی پارٹی کے لوگوں سے ”رابطہ“ رکھے ہوئے ہیں۔ مخدوم محمد امین فہیم جیسے رہنماؤں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس وقت بلاول بھٹو زرداری کہاں ہیں۔ یہ وہ پارٹی ہے‘ جس کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے بعد اُن کی صاحبزادی شہید محترمہ بینظیر بھٹو انتخابات کے موقع پر پورے ملک کے طوفانی دورے کرتے تھے۔ ان انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کی کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آتی ہے۔ اے این پی کی انتخابی ریلیوں پر بھی کئی حملے ہوچکے ہیں‘ جن میں کئی بے گناہ لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر کے باہر دو بم دھماکوں میں10 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی اپنی انتخابی مہم روک دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ امر ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تینوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ درپیش آنے والے واقعات کے محرکات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
ایک خطرہ بظاہر طالبان کا ہے جس کی وجہ سے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں یہ کہہ سکتی ہے کہ اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے ہیں اور اُن کے مخالفین کو انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔ دوسرا خطرہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے ہے جن کا ہدف وہ تمام سیاسی جماعتیں ہیں جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور اے این پی بلوچستان میں بھی طالبان کے نشانے پر ہیں۔ اس صورتحال میں دو اہم معروضی حقائق کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ صرف پنجاب میں انتخابی گہما گہمی ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا روایتی گہما گہمی سے محروم ہیں۔ دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں بوجوہ اپنی عوامی رابطہ مہم نہیں چلا پارہی ہیں اُنہیں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کہا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی تو اپنے آپ کو بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کہلانا ہی پسند کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف جو سیاسی جماعتیں آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور بڑے بڑے جلسے منعقد کررہی ہیں‘ اُن میں سے کوئی بھی جماعت بائیں بازو کی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اگر اپنے آپ کو دائیں بازو کے کیمپ میں شامل نہ بھی کرنا چاہیں‘ تب بھی وہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں نہیں ہیں اور طالبان بھی اُنہیں اپنا مخالف تصور نہیں کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا دونوں معروضی حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کو کس طرف لے جایا جارہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عام انتخابات کا اگر انعقاد ہوتا ہے تو ان کے نتیجے میں دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں پاکستان کے ”اکثریتی عوام کا مینڈیٹ“ حاصل کرسکتی ہیں اور اُس کے بعد دنیا کو یہ باور کرایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اُن مسلم ممالک بشمول ترکی‘ الجزائر اور بعض عرب ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے‘ جہاں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں عوام میں زیادہ مقبول ہیں اور اُنہوں نے پاکستان میں ”انقلاب“ برپا کردیا ہے۔ پاکستان کی اس پہچان سے ممکن ہے کچھ عالمی قوتوں کو فائدہ پہنچے اور وہ اس خطے میں اپنے عزائم کی تکمیل میں آسانی محسوس کریں لیکن وادی سندھ کے علاقوں پر مشتمل مملکت پاکستان کی یہ حقیقی پہچان نہیں ہوگی اور اس سے خیبر تا کراچی ایک خوفناک بے چینی جنم لے سکتی ہے۔ یہ بات کسی نہ کسی مرحلے پر بلند آواز سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے طالبان یا اُن کی پشت پناہی کرنے والی عالمی قوتیں نہیں کرسکتی ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ انتخابات سے پہلے جو ماحول بنایا گیا ہے‘ اس کے خلاف چھوٹے صوبے بھی احتجاج کرسکتے ہیں اور ”انقلاب اور تبدیلی“ کی داعی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو پنجاب کے عوام کے ”مینڈیٹ“ کے سہارے پورے ملک پر مسلط کرنے سے چھوٹے صوبوں میں کوئی دوسری سوچ بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
بہرحال انتخابات سے پہلے جو ماحول پیدا ہوگیا ہے اُس کے بارے میں ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کرنے کی ضرورت ہے کہ ماحول آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے موزوں نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا ماحول ہے کہ اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو بھی ان سے مخصوص قوتوں کو فائدہ ہوگا اور اگر نہیں ہوتے تو بھی انہی مخصوص قوتوں کو فائدہ ہوگا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس صورتحال پر توقع کے مطابق احتجاج نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ”جمہوری انداز سے“ پاکستان کو اُن ممالک کی صف میں دھکیلنے پر کوئی بڑی مزاحمت سامنے آئی ہے‘ جن ممالک کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں کے عوام نے ترقی پسند اور روشن خیال قوتوں کو مسترد کردیا ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے ذہن میں کچھ خدشات پیدا ہورہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جیسے افغانستان کی جنگ اور نائن الیون کے واقعے کے بعد پیدا ہوئے تھے لیکن اُن سے پہلے پاکستان میں ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق کو لایا گیا اور دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف کو لایا گیا۔ پاکستان کے اندر جو سیاسی ماحول بنایا گیا ہے وہ کسی مارشل لاء سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جمہوریت کے ذریعے پاکستان میں ایک مخصوص نوعیت کی حکومت قائم کی جاسکتی ہے یا انتخابات ملتوی کراکے ایسی ہی حکومت کی تشکیل کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جو ظاہری طور پر امریکہ مخالف اور اندرونی طور پر امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والی ہو لیکن اگر عام انتخابات ہوجائیں تو یہ پاکستان کے عوام کے لئے نقطہ نظر سے بہتر ہوگا۔
تازہ ترین