• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزادعلی
ہمارا عمومی طور پر ایک مائنڈسیٹ ہے، ہمارے اکثر دانشوروں کی سوچ اور فکر کے زاویےابھی تک خواتین کے پردے اور حجاب سے متعلق مسائل سے آگے نہیں بڑھ سکے، ملکی سیاست میں بھی ہم کسی تبدیلی کے کم ہی قائل ہوتے ہیں، ہماری سوچنے کی صلاحیتیں منجمد ہیں، سیاست ہو یا صحافت حتیٰ کہ تعیلم جیسا اہم ترین موضوع ہم کسی نئی تھیوری پر غور کرنا بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے، مروجہ سیاسی سماجی افکار سے ہٹ کر سوچنا گویا ہماری سرشت میں نہیں، ہماری جامعات بھی زیادہ تر ایسے اذہان کی تشکیل کرتی ہیں جن میں تخلیق کا عنصر کارفرما نظر نہیں آتا، سائنس جیسے مضمون کو بھی رٹہ لگانے کے انداز میں پڑھانے کی مشق کی جاتی ہے دیگر مضامین میں بھی طلباء خود سے کوئی مقالہ یا تھیسس پیش کرنے سے قاصر دکھائی دیں گے، پہلے سے کی ہوئی تحقیق کو ہی آگے پیچھے کرکے کام چلایا جاتا ہے، پھر یونیورسٹیوں میں مناسب لٹریچر بھی دستیاب نہیں ہوتا، سیاسی اکابرین سے لے کر صحافتی عقبری شخصیات تک تعمیری تنقید کے لفظ سے گویا آشنا ہی نہیں، تبدیلی فکر کے کسی علم بردار کے لیے کلمہ خیر کہنا ہماری روایت نہیں، ذہنوں کے بند تالے کھولنے کی کسی کوشش کو ہم پذیرائی نہیں بخشتے، ہماری محافل میں ستاروں سے بھی آگےچہاں اور بھی ہیں جیسے اشعار بھی صرف مجلسِ گرم کرنے کی خاطر سنائے جاتے ہیں، جدید دنیا تو عملی طور پر نئی نئی دنیائیں تسخیرِ کر بھی چکی ہوتی ہیں، اس لیے آج مروجہ مسائل جن پر ہر تیسرا شخص اپنے خیالات عالیہ پیش کر رہا ہوتا ہے سے قدرے ہٹ کر بات کریں گے یعنی ہمارا ہر معاملے پر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ بن چکا ہے اس مائنڈ سیٹ سے ہٹ کر نہ ہم کچھ سوچتے ہیں نہ سننا چاہتے ہیں، وطن عزیز کو تو رہنے دیں برطانیہ اور دیگر مغربی معاشروں میں بھی مختلف حوالوں سے ہم اپنی کمیونٹی کا ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں۔ سو آج اسی موضوع پر بعض تحقیق کو شئیر کریں گے، دو طرح کے مائنڈ سیٹ ہیں ایک فکسڈ اور دوسرا گراوتھ، دو بنیادی ذہنی اپروچ جو ہماری زندگی کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیرول ڈویک ایک امریکی ماہر نفسیات ہیں جن کا انسانی ذہنیت کی نفسیاتی خصلت پر تحقیقی کام کے لئے پہچان ہے۔بچے سیکھنے کے لئے کیسے موٹی ویٹ ہوسکے ہیں، حوصلہ افزائی کیسے کی جائے، لوگ کیوں کامیاب ہوتے ہیں (یا نہیں) اور کامیابی کو کیسے فروغ دیتے ہیں؟ اس طرح کے موضوعات کو وہ محققانہ انداز میں پیش کرنےکی شہرت رکھتی ہیں، عمومی اعتبار سے لوگ یا تو فکسڈ مائنڈ سیٹ کے حامل ہیں یا گراوتھ مائنڈ سیٹ،فکسڈ اذہان کا یہ یقین ہے کہ ذہانت کو بدلا نہیں جاسکتا جب کہ گراوتھ مائنڈ سیٹ ایک ایسا ذہن ہے جو سعی مسلسل، محنت، لگن، انتھک جدوجہد سے پروان چڑھایا جاسکتا ہے یہ لوگ خطرات مول لیتے ہیں، ناکامیوں سے دل برداشتہ نہیں ہوتے اور ایک نہ ایک دن کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے، برطانوی درسگاہوں میں اس تھیوری پر بہت کام ہو رہا ہے تاکہ طلباء محنت اور عمل کے ذریعے اپنی تعلیمی استعداد بڑھا سکیں، ان کو اساتذہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو محنت، اچھی حکمت عملی اور دوسروں کی مدد سے جلا بخش سکتے ہیں ارتقائی انداز فکر سے آپ کی صلاحیتوں کو نکھار مل سکتا ہے یہ زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کا رجحان رکھتے ہیں، خطرات مول سکتے ہیں ، ان کا نظریہ فکر یہ ہے کہ ترقی کے لئے ترقی کی ذہنیت کا ہونا ضروری ہے۔ آپ کی ذہانت کو بہتر بنانے کے لئے کس طرح صحیح ذہن سازی تیار کی جائے یہاں کے دانشور، فلاسفر اور ماہرین نفسیات ان سٹریٹجیز پر یکسو ہیں، ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے ذہن کے بند دریچے کھول دیں ان پر لگے قفل توڑ دیں، جمی کثافت ہٹادیں، اور جو یہ تھیوری ہے کہ کہ جو بھی کوشش کرتا ہے وہ کامیاب ہوسکتا ہے، اس ہر غور کرنے کی زحمت گوارا کر لیں، مگر یہ خیال رہے کہ اس کے لیے مقصد سے لگن اور اپنے آپ پر اعتماد ضروی ہے، خود ساختہ تصورات سے نجات ضروری ہے اور ایک ایسے ذہن کی تشکیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جسے انکوائری مائنڈ یعنی جستجو والا ذہن کہا جاتا ہے، اس طرح کے مفکرین کہتے ہیں کہ ہماری شعوری بلکہ لاشعوری فکر اور سوچیں ہماری زندگیوں کو کس طرح متاثر کرتی ہیں ان عوامل پر تفکر اور غور وفکر کیا جانا چاہیے، مختلف نظریات کو کڑے تجربات کی کسوٹی اور گہرے مشاہدات کے پیمانے سے گزارا جاتا ہے مگر شومئی قسمت ہمارے شب و روز مغربی ممالک میں بھی ایسے لوگوں کی رہنمائی میں گزر جاتے ہیں جو فکسڈ مائنڈ سیٹ سے ہمارے جڑے رہنے میں اپنا اور اپنی اولادوں کا مفاد سمجھتے ہیں، اس تناظر میں بحیثیت قوم ہمیں چاہیے کہ رجعت پسندانہ نظریات کو مسترد کرتے ہوئے خود بھی تخلیق کی طرف مائل ہوں اور اپنے بچوں کو بھی تخلیقی مواقع فراہم کریں تاکہ کم ازکم وہ تو زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں ۔
تازہ ترین