• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی 2013ء میں صرف تیرہ دن باقی ہیں، ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھرپور طریقے سے الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم اپنی انتخابی مہم شروع نہیں کر پا رہی، اس کی وجہ سیکورٹی کے مخدوش حالات ہیں۔ بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے بیٹے کے قتل کے بعد حالات مزید خراب ہو رہے ہیں آئے روز دھماکے انتخابات کے یقینی انعقاد میں مزید شکوک پیدا کر رہے ہیں۔ ایک روز میں بلوچستان اور کے پی کے میں 5دھماکے جبکہ کراچی میں 24گھنٹوں میں 24بم دھماکے اور پھر متحدہ کے دفتر کے سامنے دھماکے سے 6/افراد اور اے این پی کے دفتر کے قریب دھماکے میں 12/افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کا سخت فقدان ہے۔ ہماری تو خواہش ہے کہ الیکشن تک کے دن خیریت سے گزر جائیں ۔ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں۔ ہم کے پی کے میں اے این پی کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کریں گے۔ چونکہ امن وامان کوقائم رکھنا وفاق اور صوبائی حکومتوں کاکام ہے لیکن پھر بھی الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کو2009ء میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئی مہینے بحث کے بعد تیار کی جانے والی ایک جامع رپورٹ بھجوائی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ خطرات کم کر کے عوام کا اعتماد بڑھائیں تاکہ وہ آزادانہ انداز میں ووٹ ڈالنے کا اپنا حق استعمال کرسکیں لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن ہی کی رپورٹ کی مطابق پورے ملک میں21ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن حساس ہیں ان میں سے10ہزار 273تو حساس ترین ہیں۔ ان میں سے پنجاب میں 26سو 17، سندھ میں 42 سو 29، خیبر پختوانخوا میں 10سو 56فاٹا میں 510، اسلام آباد میں 10پولنگ اسٹیشن اور بلوچستان میں 14سو پولنگ اسٹیشن بہت ہی حساس ہیں۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کو خط کے ذریعے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ہوسکتا ہے کہ بہت ہی کم ہو ۔ اس لئے نگران حکومت کو اپنی ترجیحات میں امن وامان کی صورتحال کو اولیت دینی چاہئے ۔ چونکہ ایسے حالات میں انتخابات ہوں گے تو پھر ان کے نتائج کے حوالے سے بہت زیادہ سوالات اٹھائے جائیں گے، جو الیکشن کے بعد کے حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینا بھی ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جب تک اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی جاتی اور دوسرے ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو اطمینان بخش صورتحال کی خبر نہیں ملتی تو وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے کیونکہ وہ تو ملک میں صحیح معنوں میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ آج ہم اپنے کالم میں مسعود عباسی کاکینیڈا سے لکھا گیا ایک خط شامل کر رہے ہیں جو بیرون ملک رہنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ایک مثبت تبدیلی کیلئے کس طرح کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
وطن سے باہر بسنے والے لاکھوں ہموطنوں کی طرح کینیڈا میں بھی تقریباً ڈھائی لاکھ پاکستانی انجانی سی امید اور وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت نے اپنے5سال مکمل کئے ہیں۔ امید ہے نگران حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار رہے گی۔ الیکشن کمیشن مکمل آزاد ہے اور فوج بحیثیت ایک ادارہ ، شانہ بشانہ الیکشن کمیشن کا ساتھ دے گا تاکہ منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کی گارنٹی دی جاسکے۔ ہم پردیسی بھی اسی دھرتی ماں کے بیٹے ہیں جس دن قوم کو کوئی اچھی خبر سننے کو ملتی ہے تو ہماری بھی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور خدانخواستہ اگر کوئی مشکل یا مصیبت آجائے تو ہمارے منہ بھی لٹک جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات غیروں کی گھورتی آنکھوں اور طعنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے۔ الیکشن2013ء میں حصہ لینے کیلئے کینیڈا میں بسنے والے تقریباً ڈھائی لاکھ پاکستانی بے چین ہو رہے ہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اس لئے بھی دینا چاہئے کہ باہر بسنے والے لاکھوں پاکستانی تقریباً12/ارب روپے وطن عزیز بھیجتے ہیں ۔ جس میں سے خطیر حصہ مغرب سے جاتا ہے۔ اوور سیز ووٹرز کو ووٹ کا حق اس لئے بھی دینا ضروری ہے تاکہ اس کے اعتماد اور یقین کو بڑھایا جا سکے اور وہ ملکی حالات اور اس کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لے سکیں۔ کینیڈا میں بسنے والے پاکستانیوں میں 75 فیصد تقریباً صرف ٹورنٹو میں بستے ہیں، بعض علاقے تو منی پاکستان لگتے ہیں اور باقی پاکستانی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پاکستانی ہائی کمیشن اوٹاوا (OTTAWA) کی پریس قونصلر بتا رہی تھیں کہ کینیڈا میں ووٹ کاسٹ کی سہولت حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہے ۔ ہائی کمیشن کے علاوہ ہمارے 3قونصل خانے جو کہ مونٹریال ، ٹورنٹو اور وینکور میں مکمل طور پر تیار ہیں اور صرف الیکشن کمیشن کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں ، کمیونٹی میں جب چند سرکردہ احباب سے بات ہوئی تو اس میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بہرحال امید ہے الیکشن کمیشن اور فارن آفس اس کا کوئی نہ کوئی حل بھی نکال لیں گے۔ چونکہ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام ہے، صدارتی نظام تو ہے نہیں اپنے حلقے سے باہر ڈالا گیا ووٹ کہاں پر کاؤنٹ ہوگا ۔ میڈیا پر آئے دن کرپشن کی کہانیاں سن سن کر لوگ تبدیلی کی آس تو لگائے بیٹھے ہیں لیکن تبدیلی کیسے آئے گی یا تبدیلی کو درمیان سے ہائی جیک کر لیا جائے اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے۔ وہ تمام پاکستانی جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ یا نائیکوپ ( انٹرنیشنل شناختی کارڈ ) ہے تو نادرا ان کے نام متعلقہ قونصل جنرل کو بھیج دیں گے جہاں سے لوگ اپنے ووٹ کی تصدیق کر کے کاسٹ کر سکیں گے۔ کینیڈا چونکہ بہت پھیلا ہوا ہے اور یہاں پر تو کینیڈین الیکشن پر چھٹی نہیں ہوتی تو ہمارے الیکشن پر چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں ہوسکتا اگر ہم لوگ روایتی سستی وکاہلی کا شکار نہ ہوں تو پھر بھی ووٹ کاسٹ کی شرح زیادہ نہیں ہو گی ۔ اکثر پاکستانیوں کے پاس دہری شہریت ہے لیکن پاکستانی الیکشن میں حصہ لینے اور ووٹ کاسٹ کرنے کی حد تک کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بہرحال ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے 11مئی کا دن بھی خیرو عافیت سے گزر جائے ۔ اللہ تعالیٰ قوم کو اس امتحان میں بھی سرخرو کرے اور خاص طور پر پاکستانی کینیڈین اپنے ووٹ کے حق کو ضرور استعمال کریں۔ بھلے ہمیں جسمانی یا مالی اذیت برداشت کرنی پڑے۔ ہم اوور سیز پاکستانیوں نے ثابت کرنا ہے کہ ہم بھی مادر وطن سے جڑے ہوئے ہیں۔
تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے کیس بھی سپریم کورٹ میں 2سال سے زیر سماعت ہے ۔ سماعت کے دوران عدالت پہلے بھی کئی مرتبہ حکومت کو ہدایت کر چکی ہے اب تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کیلئے حکومت فوری طور پر آرڈیننس جاری کرے کیونکہ اب تک نتیجہ خیز قانون سازی نہ کرنا دراصل آئندہ انتخابات میں دھاندلی کا ایک راستہ بنانے کے مترادف ہے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے وقت ضائع کر رہا ہے۔ اُدھر الیکشن کمیشن اور حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے معذرت کر لی ہے ۔ گو بعض ممالک نے الیکٹرانک ووٹ ڈالنے کے حوالے سے اجازت دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئندہ 5سال میں تارکین وطن کو ووٹ کی سہولت دیں گے۔ دیکھتے ہیں اب 11مئی کو یہ ووٹ ڈال سکیں گے یا نہیں؟
تازہ ترین