• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے موقع پر جب پاناما لیکس کی دستاویزی شہادتوں کے مطابق آف شور کمپنیوں میں تقریباً ڈھائی سو پاکستانیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی قانونی یا غیرقانونی سرمایہ کاری کا معاملہ ملکی سیاست میں تلاطم اور عوام کے ذہنوں میں ہیجان پیدا کررہا ہے، قومی اسمبلی کے اجلاس میں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دوکھرب سے زائد رقم کی موجودگی کا ذکر اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ پاناما لیکس کی طرح پچھلے عشرے میں اس مسئلہ پر بھی بہت ہاہاکار مچی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ دوسرے معاملات کی طرح یہ بھی تاریخ کی گرد میں دب گیا یا دبا دیا گیا۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران بتایا کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں اس وقت پاکستانی سرمایہ داروں کے دوسوارب ڈالر پڑے ہیں۔ سوئس حکام سے اس بارے میں دوملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ان سے درخواست کی گئی ہے کہ اس رقم تک رسائی دی جائے ، جیسے ہی رسائی ملی، جائزہ لیا جائے گا کہ یہ پیسے قانونی ہیں یا غیرقانونی۔ پاناما لیکس میں جس سرمائے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے قانونی یا غیرقانونی ہونے پر تو بحث ابھی جاری ہے لیکن سوئس بینکوں میں جمع دولت کے متعلق عمومی تحقیق اور تاثر یہی ہے کہ یہ سب غیرقانونی طریقوں سے حاصل کیا جانے والا پیسہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں دنیابھر کے سرمایہ داروں نے اپنا پیسہ ڈال رکھا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں نے تحقیقات کے بعد سوئس حکام سے اس رقم کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور بعض اسے حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ پاکستان کی جانب سے بھی اس معاملے میں سلسلہ جنبانی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ معاشی بحالی کے اہم مرحلے میں ہے مگر اس کے سارے ترقیاتی کام وسائل کی کمی کی وجہ سے غیرملکی قرضوں کے محتاج ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے 6جون 2013سے فروری 2016تک 16ارب 62کروڑ ڈالر سے زائد کے غیرملکی قرضے اور گرانٹس حاصل کیں ان میں ساڑھے تین ارب ڈالر کے بانڈ بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف سے تین سال میں 5ارب 76کروڑ ڈالر سے زائد قرضہ لیا گیا جو توانائی اور دیگر شعبوں میں بہتری کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے قبل پاکستان 47ارب 80کروڑ ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ اب یہ قرضہ بڑھ کر 53ارب 90کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ اس دوران ملکی قرضے بھی لئے گئے مگر ان کا سود تین گنا زیادہ ہونے کی وجہ سے غیرملکی قرضوں کو ترجیح دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرضوں سے ملکی معیشت ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئی۔ قرضے لینے کا مقصد ہی اقتصادی ترقی کی رفتار تیزکرنے کیلئے مطلوبہ ملکی وسائل کی کمی کو پورا ہونا ہوتا ہے۔ ان سے انفراسٹرکچر کی بنیاد استوار کی جاتی ہے اور ادائیگیوں کا توازن درست کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ان سے نجات حاصل کرنے کیلئے ملکی وسائل کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملکی سرمایہ مشکوک انداز میں آف شور کمپنیوں اور سوئس بینکوں میں منتقل ہوتا رہے اور قوم قرضوں کے بوجھ تلے پستی رہے۔ اس وقت ساری دنیا میں غیرقانونی ذرائع سے دوسرے ملکوں کو دولت کی منتقلی اور منی لانڈرنگ جیسے معاملات کی تحقیقات ہورہی ہے۔ پاکستان کو بھی ایسے معاملات کی سختی سے تحقیقات کرنی چاہئے۔ پاناما لیکس کا معاملہ تو تفتیشی عمل سے گزرے گا ہی، سوئس بینکوں میں جمع رقوم کی بھی چھان بین کرنی چاہئے اور انہیں واپس لانا چاہئے۔ مالی کرپشن ملک کی اقتصادیات پر سب سے بڑا حملہ ہے۔ ماضی میں وزرائے اعظم اور وزرا بھی اس حوالے سے تحقیقات کی زد میں آئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی بنے۔ مالی شفافیت کیلئے حکومت کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ایک تو قومی دولت میں خیانت کا خاتمہ ہو دوسرا اس حوالے سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی دور ہو اور معیشت کا پہیہ درست سمت میں رواں دواں رہے۔
تازہ ترین