• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا رحیم رب جو جبار و قہار بھی ہے اپنی پاک کتاب میں کہتا ہے کہ ”بصیرت والو عبرت پکڑو “ تاریخ اِنسانی عبرت کا نشانہ بننے والوں سے بھری پڑی ہے۔ فرعون ، شدّاد ، میسولینی ، رضا شاہ پہلوی ، انورالسادات ، حُسنی مبارک ، کرنل قذافی کے انجام ہی سے نہیں بلکہ بے پناہ قربانیوں سے حاصل ہونے والی مملکت پاکستان کو دو لخت کرنے والے کرداروں کے ” نشان عبرت “ بننے سے کون واقف نہیں مگر عبرت پکڑنے کیلئے ماضی سے زیادہ سبق ہم گزشتہ عشرے کے ”زمینی خُدا “ سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ 18/اپریل 2013 ء جس کو جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے کے تناظر میں بعض لوگ پاکستان کا روشن ترین اور بعض بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر حکام کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عدم عملدرآمد کی بنا پر سیاہ ترین قرار دے رہے ہیں۔
ہائیکورٹ میں ضمانت کی منسوخی کے بعد پرویز مشرف کی عدم گرفتاری ایک بڑا لمحہٴ فکریہ ضرور ہے مگر اِس حقیقت سے انکار کون کر سکتا ہے کہ ملک واپس آ کر صیاد خود اپنے دام میں آ گیا ہے۔ یار لوگ دور کی کوڑی لا رہے تھے کہ فوج اپنے سابق سپہ سالار کو کسی صورت گرفتار نہیں ہونے دے گی مگر یہ امر واقع ہو چکا ہے اور اس اقدام میں جنرل کیانی سیاسی معاملات میں مخل نہیں ہو رہے۔ ججوں کو گرفتار کر کے جہاں مشرف نے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا تھا وہیں جنرل کیانی نے پوری قوم سمیت دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آج کا پاکستان ماضی سے بہت مختلف ہے۔ حکومتیں اور دنیاوی قوتیں تو مصلحتوں اور پروٹوکول کا شکار ہو سکتی ہیں مگر پروردگار کا قانون کِسی پروٹوکول اور جرنیل سے مرعوب نہیں ہوتا۔ درحقیقت اُس کا قانون متحرک ہو چکا ہے۔ ذہن کے پردہٴ اسکرین پر ماضی قریب کی فلم چل رہی ہے ۔ 12 مئی 2007 ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دِن جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو کراچی اےئرپورٹ سے باہر نہ جانے دیا گیا۔ چیف جسٹس کے استقبال کے لئے آنے والے پچاس سے زائد افراد کو گولیوں سے بُھون دیا گیا۔ اگلے دن اس موقع پر احتجاج کرنے والے چند وکلاء کو زندہ جلا کر فِسطائیت کی انتہا کر دی گئی۔حکومت اور انتظامیہ عوام کی حفاظت کے لئے باڑ کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ کیسی باڑ تھی جو اپنی ہی فصل کو کھا رہی تھی؟ 12 مئی کی شام اسلام آباد کی شاہراہ قائد پر ایوان صدر کے عین سامنے، وقت کے آمر کی رعونت عروج پر تھی۔ جہاں اپنے خطاب میں بیگناہ لوگوں کے قتل پر افسوس اور معذرت کے بجائے طاقت کے نشے میں بدمست آمر نے آستینیں چڑھا کر کہا ”جو میرے قانون“ کو توڑے گا ، اُس کا حشر آج صبح جو میں نے کراچی میں کیا اپنی رِٹ قائم کرنے کے لئے ملک بھر میں ایسا ہی کروں گا۔ مرد آہن کے دور پُرفتن کی کس کس تصویر پر پردہ ڈالوں؟ 16 مارچ 2007ء آپ کے غنڈوں نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں نجی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہو کر جو تباہی کی، جو اودھم مچایا اُسے کیسے بھلایا جائے؟ اُسی 16 مارچ کی شام اسلام آباد ہی میں معتبر خبر رساں ادارے کے مدیر اعلیٰ کو اُس کی گاڑی سے نکال کر ”آپ کے بہادر“ نہ جانے کہاں لے گئے ۔” کمانڈوز “ نے گاڑی میں ڈال کر اُس کا سر گاڑی کے فرش پر رکھا۔ ”جوانوں“ کے بُوٹ اُس صحافی کے سر پر تھے۔18 مئی کو اُسی مدیر کو سرعام آپ کے ”جوانوں“ نے تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ ”لاچار“ کئی دن تک اسپتال میں زیر علاج رہا ۔ بعد میں اُسی مدیر کے پندرہ سالہ بیٹے کو اسکول گیٹ پر آپ کے ”شیروں“ نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اُس مدیر کو یہ انعام تو ملنا ہی تھا کہ اُس نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کے اصل کرداروں کو بے نقاب کیا تھا اور غائب کر دےئے جانے والے لوگوں کی کئی اسٹوریز دی تھیں۔ملک کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کو دیوار سے لگانے کیلئے کون سا ہتھکنڈہ تھا جو آپ نے استعمال نہ کیا ہو۔ اِس ادارے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا،ادارے کے سربراہ کو دیگر انتقامی ہتھکنڈوں کے علاوہ ”آمر“ کی ” انتظامی مشینری “ نے درجن سے زائد افراد کی فہرست تھمائی کہ انہیں فوری طور پر نکالا جائے ۔ سب سے بڑے اشاعتی ادارے کے سربراہ نے سُنی ان سُنی کردی ۔
درجن سے زائد افراد کی فہرست سکڑتے سکڑتے حامد میر اور انصار عباسی تک جا پہنچی کہ اگر اِن کو نہ نکالا گیا تو ایسی کی تیسی پھیر دی جائے گی مگر ادارے کے سربراہ کے ظرف اور استقامت کو خراج پیش نہ کرنا بہت بڑی بُخل ہو گی جنہوں نے جرأت کی عظیم مثال قائم کی ۔ڈھنڈورا تو یہ پیٹا جاتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو آزادی ”جنرل“ نے بخشی مگر ذرائع ابلاغ کے اداروں پر کیا کیا گزری وہ شکاری سے زیادہ جال کے جاننے کے مترادف ذرائع ابلاغ کے ذمہ دار ہی جانتے ہیں۔ بے شرمی کو بھی افتخار بنا کر اپنی کتاب ”اِن دی لائن آف فائر“ میں کس نے بیان کیا؟ یہ اعتراف کس نے کیا کہ کس کس کو کتنے کے عوض امریکہ بہادر کے ہاں فروخت کیا گیا؟ آمنہ مسعود پر کیا بیتی؟ آمنہ کا دُکھ تو وہی جان سکتے ہیں جن کے سہاگ اُجڑ گئے یا وہ مائیں بہنیں بتا سکتی ہیں جن کے لعل ”غائب“ کر دےئے گئے ۔
اِس نظریاتی مملکت کے دارالحکومت کی مسجد کے اندر گولی چلنے کا تصور کیا جا سکتا تھا؟ ہرگز نہیں مگر آپ نے جو ”کارنامہ“ مسجد میں سرانجام دیا ہے اُس کا ردعمل آج ہم پاکستان بھر میں دھماکوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ عالم دین کی تضحیک الامان الحفیظ، کس طرح آپ کے ”خوشامدیوں“ نے مولانا عبدالعزیز کو برقع پہنا کر ٹی وی پر پیش کر کے قوم کے سامنے رُسوا کیا۔ آپ کے ”کارہائے نمایاں “ کسی کالم میں کون سمو سکے اِس کے لئے تو ایک کتاب بھی نہیں کئی کتابیں تحریر کر کے آپ کو ”خراج“ پیش کیا جا سکتا ہے۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والے میاں نواز شریف و عمران خان کو کیا ہو گیا ہے وہ جنرل کو کیفر کردار تک پہنچانے کی تو بات کرتے ہیں مگر جو کل تک ”جنرل مشرف“ کے دائیں بائیں چلتے تھے اُن کی بڑی اکثریت تو آج میاں صاحب اور عمران خان کے اردگرد موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نفرت کا نشان صرف جنرل مشرف کیوں؟ جزا و سزا ملنی ہے تو حصہ بقدر جُثہ اُن کو بھی ملنی چاہئے جو کل تک جنرل کا دست و بازو تھے ۔
پاکستان نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، سیاست دانوں ، فوج اور سول بیورو کریسی کو مل بیٹھ کر اپنے گناہوں سے توبہ کے بعد مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ دہرانے کا عہد کرنا ہو گا۔ اِس میں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بہتری ہے اور خاکم بدہن ہم ایسا نہ کر سکے تو داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ لاہور کے عظیم سید زادے نے کہا تھا کہ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں اگر ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف و ادراک نہ کر پائے تو جبار و قہار تو موجود ہے، عبرت کا نشان کوئی بھی بن سکتا ہے۔دیکھو جو دیدہٴ عبرت نگاہ ہو۔
تازہ ترین