• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گورے صاحب نے جن جن ملکوں پر حکمرانی کی اور ان کو آزادی دی وہ سب کامن ویلتھ کے ممبر بنائے گئے اور آج تک ہیں۔
اتنے سال گزرنے کے باوجود کامن ویلتھ کے ممبران ملک اب بھی اپنے سماجی اور سیاسی معاملوں میں گورے دوستوں کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما ولایت جا کر ہی سکون محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ نے برطانیہ کو اپنا دوسرا گھر بنا رکھا ہے وہاں ان کی جائیدادیں ہیں، ان کے بچے وہاں پڑھتے ہیں وہ وہاں کاروبار کرتے ہیں۔ ماضی میں اہم سیاسی لوگ وہاں جا کر اپنے معاہدے بھی کرتے رہے ہیں۔ پھر جنرل مشرف کے زمانہ اقتدار میں سیاسی جماعتوں سے معاملات بھی برطانیہ میں طے ہوتے رہے۔ اور آج بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔
اب ایک دفعہ پھر بیمار سیاست کے اہم لوگ جن کو جمہوریت کے سبب سیاسی بیماری کا مرض لاحق ہوا ہے وہ علاج معالجے کیلئے ولایت ہی جاتے نظر آ رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی کچھ عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ پاکستان کی ایک اور اہم سیاسی شخصیت وہاں کی مستقل شہری ہے۔ پاکستان میں سیاسی لوگوں اور اشرافیہ کیلئے علاج کی سہولت میسر نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام بہت ہی سخت جان اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ ان کو علاج معالجے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں اس وقت مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے۔ اور سب کو فکر لگی ہے کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اس کی تازہ مثال پاناما لیکس کے حوالے سے نظر آ رہی ہے۔ پاناما لیکس کے مطابق ڈھائی سو سے زیادہ پاکستانیوں کی دولت ملک سے باہر خفیہ طو رپر محفوظ ہیں۔ اب ان کی خبرہو رہی ہے۔ اس سے ملک بھر میں سیاسی طوفان شروع ہو چکا ہے۔ اس وقت اس سیاسی طوفان سے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (نواز) سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہی ہے۔ ملک بھر میں غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہو رہا ہے اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ کسی ایسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو خطرہ ہو۔ پاناما لیکس کی وجہ سے پاکستان کے جمہوری نظام کو خطرہ سا لگ رہا ہے۔ ویسے بھی جمہوریت نے پاکستان کے عوام کو کبھی بھی آرام اور راحت نہیں دی اور اس جمہوریت سے فیض یاب ہونے والے لوگ ہی ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ اور لوگ بے چارے مایوس اور محروم ہی نظر آتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اتفاق سے مرکزی سرکار کے دو اہم لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ ان میں ایک ایڈیشنل سیکرٹری اوردوسرے آزاد ممبر پاکستان قومی اسمبلی رضا حیات ہراج تھے۔ رضا حیات ہراج بھی برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی سیاست کے میدان کے اہم کھلاڑی ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانہ میں ان کی کابینہ کے اہم وزیر تھے۔ اس وقت کے مسلم لیگی تھے۔ اب وہ آزاد ممبر کی حیثیت میں اسمبلی میں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم کیا سوچ رہے ہیں۔ ان کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ وفاقی حکومت تو خوب مصروف ہے، ہاں وزیر اعظم اور ان کا خاندان اس معاملے پر توجہ دے رہے ہیں اور کچھ تشویش نظر آتی ہے۔ مگر ایڈیشنل سیکرٹری صاحب نے اختلاف رائے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم معمول کے مطابق فرائض ادا کر رہے ہیں اور کوئی تشویش اور پریشانی نظر نہیں آتی مگر جب یک دم یہ فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم نے ترکی کا دورہ منسوخ کردیا اور پھر ہمارے وزیر خزانہ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کے بورڈ کی اہم میٹنگ میں شرکت سے معذرت کرلی تو اندازہ ہوا کہ معاملات اتنے اچھے نہیں۔ پھر اچانک خبرآگئی وزیر اعظم صحت کے معاملات کی وجہ سے برطانیہ جا رہے ہیں۔ اس کے بعد ملک کی دوسری اہم شخصیت وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی ملک سے باہرجا رہے ہیں۔ اگرچہ ان کا دورہ نجی ہوگا پھر وزیر اعظم نے پہلی دفعہ اپنی غیر موجودگی میں اقتدار اور اختیارات تین لوگوں کے سپرد کردیئے ہیں۔ جس کی ضرورت تو نہیں ہے مگر جو کچھ ہونے جا رہاہے وہ بھی واضح نہیں ہے۔پھر حکومت کی جو حالت ہے وہ بھی کچھ اس طرح سے ہے۔
رنج و الم رہا نہ کسی کی خوشی رہی
کب زندگی میں کوئی گھڑی دائمی رہی
ہمارے دوست جناب اعتزاز احسن نگاہ شناس ہیں۔ ایک زمانہ میں میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم کے وکیل بھی رہے ہیں۔ میاں نواز شریف سے ان کا مروت کا رشتہ ہے۔ مگر آ ج کل ان کی اپنی پارٹی ایک ہارے ہوئے لشکر کی مانند ہے اب اس کی دوبارہ صف بندی ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی میدان عمل میں آ چکے ہیں مگر تجربہ کی کمی کچھ مشکل پیدا کررہی ہے۔ وہ مرحومہ بے نظیر کی طرح کسی انکل پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ پھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کو سیاسی فیصلوں کیلئے مطلوبہ آزادی بھی میسر نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام لوگ آصف زرداری کی طر ف دیکھتے ہیں جب اعتزاز احسن نے کہا کہ میاں نواز شریف تو آصف زرداری سے ملنے گئے ہیں تو وزیر اعظم پاکستان نے ان کے بیان کی تردید بھی نہیں کی۔
اب لندن میں سیاسی میلہ سجنے جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ مسلم لیگ نواز اس سیاسی مشاورت میں زرداری صاحب کو باور کروائے کہ اس مشکل گھڑی میں دونوں فریقوں کو ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا ہے دونوں کے اثاثے خاندان میں تقسیم ہیں اور ان کا ذکر پاکستان کے کاغذات میں نہیں ہے۔پھر ان کا تعلق پاناما سے بھی نہیں بنتا۔ مگر جو شور و غل اس وقت پاکستان میں ہے وہ عوام میں ضرور بے چینی پیدا کر رہا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کے برطانوی اور امریکی دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں ایک اور این آر اوکی ضرورت ہے جو جمہوریت کے اس پودے کو زندگی دے سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ماضی کی کرپشن کو ماضی کی غلطی مان کر سب کو معافی ملنی چاہئے مگر ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کپتان عمران خان ہے وہ بھی لندن یاترا کیلئے جا رہے ہیں بڑی طاقتوں کے نمائندوں سے بھی ان کی ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ اس نئے کھیل کے اہم کھلاڑی ہیں لندن میں کیا طے ہوتا ہے وہ اہم ہے۔ مگر پاکستان کے عوام کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب کچھ جمہوریت کیلئے ہو رہا ہے وہ جمہوریت جو عام عوام کو مسلسل مایوس اور بے کس کر رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کو ایک ہی موقع ملتا ہے جب الیکشن ہوتے ہیںاور وہ ہر بار دھوکہ کھا جاتے ہیں اب اگر سب کو معافی ملتی ہے تو ان کی قسمت۔ ہونا کچھ نہیں۔ میاں نواز شریف کا سکہ ہی چلے گا۔ بین الاقوامی دوست بھی اس پر ہی راضی ہیں۔
مشعل امید تھا سو وہ راہنما جیسا بھی ہے
اب تو چلنا ہی پڑے گا راستہ جیسا بھی ہے
سو دوستوں کو خبر ہو کہ جمہوریت بچانے کیلئے ایک نیا این آر او وقت کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین