• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدرتی ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے شہری رہائشی سہولتوں کے حصول کی خاطر جن لوگوں نے نمایاں سرگرمی کا مظاہرہ کیا ان میں Sir ebenezer Howard کا نام نمایاں ترین ہے۔ ان کی چلائی گئی سٹی گارڈن موومنٹ نے یورپ میں بالخصوص اثرات مرتب کئے اور یہ اثرات صرف یورپ تک ہی محدود نہیں ہوئے بلکہ لاہور تک آئے۔ برطانوی دور میں لاہور میں بسنے والے با اثر طبقے کے افراد، سٹی گارڈن موومنٹ سے متاثر ہو کر گزشتہ صدی کے اوائل میں ماڈل ٹائون لاہور کا قیام عمل میں لائے۔ جہاں ماڈل ٹائون کی خصوصیات میں باغات نہایت اہم ہیں، وہی پر ماڈل ٹائون کے باسیوں کے لئے علیحدہ سے اس دور کے مطابق ٹرانسپورٹ سروس بھی شروع کی۔ بعد میں ڈیفنس نے ماڈل ٹائون کی طرز پر اپنی ٹرانسپورٹ سروس شروع کی۔ اب نجی شعبے میں قائم ہائوسنگ سوسائٹی اس کی پیروی کر رہی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ سفری سہولتیں صرف با اثر طبقات تک محدودہیں ۔ لاہور میں ٹرانسپورٹ کے مسائل عام شہریوں کے لئے آزادی سے قبل ہی سر اٹھا رہے تھے،اس لئے آزادی کے بعد لاہور کے مسائل کو حل کرنےغور و فکر شروع کیا گیا اور 1965میں ماسٹر پلان فار گریٹر لاہور ترتیب دیا گیا۔ اس میں جس اہم ترین منصوبے کا ذکر کیا گیا وہ لاہور میں لوکل ٹرین چلانے کا تھا۔ اس سے قبل کراچی میں کراچی سرکلر ریلوے کو شروع کر دیا گیا تھا۔ جبکہ کراچی میں ٹرام تو 1885سے رواں دواں تھی۔ مگر فرائض سے غفلت کی وجہ سے لاہور میں اس منصوبے پر عملدرآمد نہ کیا گیا۔ 1991 پاکستان کی تاریخ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے حوالے سے نئے دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے نہایت سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا جس سے ہر شہری کو واسطہ پڑتا ہے اور وزیر اعظم ٹرانسپورٹ اسکیم تیار کی، اس پر عملدرآمد بھی کیا گیا۔ اسی دوران JICA نے تکنیکی اور مالی معاونت اس شعبے میں فراہم کرنے کی ٹھانی اور لاہور کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لئے سب سے بہتر حل لاہور میں لوکل ٹرین کے قیام کو قرار دیا گیا۔ مگر حکومت کو اتنی مہلت نہ ملی کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کر پاتی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل R1989 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں پہلے کراچی اور پھر ایک سال بعد اسلام آباد ، راولپنڈی میں عوامی بس ٹرین شروع کی گئی اس سروس نے 1991ءسے لیکر 1993ءتک 45% مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کیا جبکہ اس مختصر عرصہ کے دوران اس منصوبے میں لگائی گئی 68% رقم بھی واپس آ گئی۔ مگر نوازشریف حکومت کے 1993 ءمیں خاتمے کے بعد یہ سروس روبہ زوال ہو گئی۔ اور بالآخر بند کر دی گئی۔ 1996ءمیں ہی محترمہ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں راولپنڈی اسلام آباد کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے رش کے اوقات کے دوران چھ ٹرینیں دونوں شہروں کے مابین چلائی جانے لگیں۔ جن کی تعداد 3 ماہ بعد 4 تک محدود ہو گئی اور پھر یہ بند کر دی گئیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں نیشنل ٹرانسپورٹ اسٹرٹیجی بنائی گئی اور اس میں سنجیدگی کا عنصر اتنا زیادہ تھا کہ پہلی بار اس کو حکومت سے باقاعدہ منظور کرایا گیا۔ اس سے قبل یہ صرف پالیسی ڈرافٹ ہوتا تھا اس کی بنیاد پر پنجاب میں بھی ٹرانسپورٹ پالیسی لائی گئی جس میں نئی اور پرانی سہولتوں کا ازسر نو اجراء یا شروعات ہوئیں۔ مگر 12 اکتوبر 1999کا منحوس دن قوم کا مقدر بنا اور بھلا آمریت، جمہوریت کے نام کے ساتھ جڑی کامیاب حکمت عملی کو کیسے برداشت کر پاتی۔ لہٰذا اس پالیسی کا 2000کے اوائل میں گلا گھونٹ دیا گیا۔ بہرحال 2005میں دوبارہ لاہور کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل مقامی ریل کے نظام کو ہی تجویز کیا گیا مگر یہ حل جو 1965سے تجویز کیا جا رہا تھا اس وقت تک صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا۔ اس ساری تمہید کی مقصد یہ ہےکہ لاہور کے ٹرانسپورٹ کے مسائل گمبھیر سے گمبھیرتر ہوتے جا رہے ہیں کی تاریخ کم از کم 50 برس پرانی ہے۔ لاہور میں لوکل ٹرین چلانے کی تجویز نصف صدی پر مشتمل ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس سے قبل یہ تجویز صرف کاغذوں کی زینت بنی رہی جبکہ موجودہ دور میں میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کو ہم حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ دلیل کہ صرف سرمایہ لاہور پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اپنی اہمیت اسلام آباد، راولپنڈی میٹرو اور ملتان کے منصوبوں کے بعد کھو چکی ہے۔ خیال رہے کہ مرکزی حکومت کراچی میں بھی اسی نوعیت کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بڑے شہروں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل چھوٹے شہروں یا دیہات کی نسبت مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا دیہات میں بڑے پیمانے پر پنجاب دیہی روڈ پروگرام جاری ہے۔ اور دیہات کی سڑکوں کو پختہ کیا جار ہا ہے۔ ایک مقدمہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تعلیم اور صحت سب سے پہلے ہے۔ مگر یہ وہی لوگ ہیں جن سے غریبوں کے بچے دانش اسکولوں میں برداشت نہیں ہو رہے۔ اور نہ ہی ان کی آنکھوں کو کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر کا قیام ایک آنکھ بھا رہا ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد تینوں بڑی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں اقتدار میں آ گئیں ۔ امید تھی کہ صحت مند مسابقت دیکھنے میں آئے گی اور عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر کے اگلے انتخابات میں اپنے مخالفین کو ڈھیر کیا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے دیگر دونوں جماعتوں نے صحت مند مسابقت کی بجائے صرف الزام تراشی کی جانب توجہ مبذول رکھی۔ عملیت پسندی اور سچ بولنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے حسین نواز نے اپنی گفتگو میں سچ بول کر واضح کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے سرکاری اداروں تک کی Off Sure کمپنیاں موجود ہیں۔ اگر یہ کوئی غیر قانونی کام ہوتا تو کیا حکومت پاکستان بھی اس میں ملوث ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین میں اور عالمی قوانین میں دوسرے ممالک میں ان ممالک کے قوانین کے تحت سرمایہ کاری کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ مگر یہاں ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ اسی طرح حکومت کی عملیت پسندی کے سبب سے غیر عملیت پسند عناصر مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔ امجد محمود نے ارسطو کی کتاب کا مثالی ترجمہ مثالی ریاست کے نام سے کیا ہے۔ ارسطو جمہوریت کو لاحق خطرات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "جمہوری رہنما عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مالدار طبقوں کے خلاف ایسے سخت اقدامات کرتے ہیں جو انہیں مزاہمت پر آمادہ کر دیتے ہیں"۔ بس اس وقت ایسے اقدامات کی وجہ سے ہی مالدار طبقات عوامی فلاح کے منصوبوں کے خلاف ہیں۔
kk
تازہ ترین