• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کی بہت پہلے سے ضرورت تھی لیکن… ؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چاروں صوبوں اور جنوبی پنجاب میں پارٹی کی صوبائی، ڈویژنل ، ضلعی اور نچلی سطح کی تمام تنظیمیں تحلیل کر دی ہیں ۔ انہوں نے یہ فیصلہ پارٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں کیا ۔ یہ ایک بہت بڑااور غیر معمولی فیصلہ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ دنیا کی بڑی اور قدیم سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے فیصلے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کی تنظیم نو آسانی سے ہو جائے گی اور جو نئی تنظیمیں تشکیل ہوں گی ، وہ سابقہ تنظیموں سے کس قدر مختلف ہوں گی ؟ طویل عرصے تک قائم رہنے والی سیاسی جماعتوں میں کبھی کبھی ایسا مرحلہ بھی آتا ہے ،جب ان میںبڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اہم بات یہ ہوتی ہے کہ تبدیلیوں کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتاہے۔ پیپلز پارٹی میں ایسی صورت حال بہت پہلے پیدا ہو چکی تھی ، جب پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اپنی پارٹی سے مایوس ہو گئے تھے ۔ 1967 میں پیپلز پارٹی قائم ہوئی اور صرف 9 سال بعد بھٹو صاحب نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب وہ پارٹی نہیں رہی ، جو انہوں نے بنائی تھی ۔ نظریاتی اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے رہنما اور کارکن پارٹی کو چھوڑ چکے تھے ۔ غالباً 1976 ء کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے وزیر اعظم چوین لائی ( Zhou Enlai ) کو ایک ملاقات کے دوران اپنی پارٹی کی اس صورت حال سے آگاہ کیا تھا ۔ چوین لائی نے غور سے بھٹو صاحب کی باتیں سنیں اور ان سے کہا کہ وہ ایک خط کے ذریعے مشورہ دیں گے کہ اب کیا کرنا ہے ۔ وزیر اعظم چوین لائی نے 17 یا 18 صفحات کا ایک خط بھٹو صاحب کو لکھا تھا ، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’ نئی پارٹی بنائی جائے ‘‘ ۔ انہوں نے اپنی اس تجویز کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صورت حال میں معاملات کو ٹھیک کرنا مشکل ہو گا ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی 1921 میں قائم ہوئی تھی اور اس میں بھی شروع سے لے کر اب تک یہ بحث رہی ہے کہ پارٹی کے امور کیسے چلائے جائیں تاکہ پارٹی کی تنظیم بھی مضبوط رہے اور پارٹی کارکنوں کا نظریاتی رشتہ بھی قائم رہے ۔ ایک سیاسی پارٹی کو تاریخ کے اتار چڑھاؤ میں قائم رکھنا بہت مشکل کام ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اس حوالے سے ہر وقت فکری ریاضت میں رہتے تھے ۔ چوین لائی کے مشورے پر بھٹو صاحب نئی پارٹی بنانے یا پارٹی میں یکسر تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن انہیں اس کا وقت نہیں ملا ۔ تاریخ کا گہرا ادراک رکھنے والے بھٹو صاحب کو اس وقت پارٹی کے کمزور ہونے کا زیادہ احساس ہوا ، جب پارٹی کی ’’ کور لیڈر شپ ‘‘ نے مشکل وقت میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ سازباز کر لی تھی اور بھٹو کو بچانے کے لیے پارٹی کچھ بھی نہ کر سکی تھی ۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی ازسر نو تنظیم سازی نہ ہو سکی ، جس کا مشورہ چوین لائی نے دیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کوتوپارٹی کی کمان سنبھالنے سے اپنی شہادت تک اس کا موقع ہی نہیں ملا ۔
تنظیم نو کے کام کی بہت پہلے سے ضرورت تھی لیکن یہ کام مرحلہ وار اور طویل مشاورت سے ہوتا تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے ۔ صوبے سے لے کر نیچے تک تمام تنظیموں کو تحلیل کرنے کے بلاول بھٹو زرداری کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے وہ کارکن یقیناً خوش ہوں گے ، جنہیں اب تک نظرانداز کیا گیا ہے ۔ یہ کارکن پارٹی کے اندر ’’ انقلاب ‘‘ اور کایا پلٹ کے حامی ہیں لیکن کیا ان کی مرضی کی تنظیمیں بن پائیں گی ، جیسا کہ اس فیصلے سے ان کی توقعات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس فیصلے کے فوری طور پر کیا اثرات ہوں گے ، ان پر آگے چل کر بات کرتے ہیں ۔ پہلے پارٹی کے اندر اس طرح کی صورت حال میں کیا ہوا ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں صوبائی تنظیموں میں بھی تبدیلیاں کی گئیں ، کچھ ڈویژنل اور ضلعی سطح کی تنظیموں کو بھی تحلیل کیا گیا ۔ یہ سب کام مرحلہ وار اور وقفے وقفے سے ہوئے ، اس کے باوجود کوئی مثالی صورت حال پیدا نہ ہو سکی ۔ ایک زمانے میں اقبال حیدر مرحوم کو پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کا صدر بنایا گیا تھا ۔ انہوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی ڈویژن کی تنظیم تحلیل کر دی تھی ، جو ڈیڑھ سال تک دوبارہ نہیں بن سکی تھی ۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ کسی سیاسی جماعت کی دو بنیادی چیزیں ہوتی ہیں ، ایک نظریہ اور دوسری تنظیم ۔ ان میں سے ایک بھی کمزور ہو جائے تو دوسری بنیاد بھی ازخود کمزور ہو جاتی ہے ۔ انقلاب روس کے بانی لینن نے سیاسی جماعتوں کی بقاء کے لیے ’’ جمہوری مرکزیت ‘‘ کا تصور دیا تھا ۔ جمہوری مرکزیت کا مطلب پارٹی کی طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز کرنا نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے پارٹی کی مرکزی قیادت کو نچلی سطح سے طاقت فراہم کرنا ہے ۔ اس وقت پیپلز پارٹی میں زیادہ تر ایسے لوگ آگے آگئے ہیں ، جو بلاول بھٹو زرداری کی نظریاتی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کے آگے آنے سے پارٹی کا وہ پہلے والا چہرہ نہیں رہا اور کارکنوں اور عوام کا پارٹی سے رومانویت کا رشتہ کمزور ہوا ۔ پارٹی میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت تھی لیکن تبدیلی کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جاتا ، جو دنیا کی مقبول اور طویل عرصے تک قائم رہنے والی سیاسی جماعتیں اختیار کرتی رہی ہیں ۔صوبوں میں ساری تنظیمیں توڑ دینے سے قیادت کا ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے ۔ سندھ میں اس کا فوری طور پر اثر بلدیاتی اداروں کی چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کے انتخاب پر پڑے گا ۔ اس خلاء میں پارٹی کے ان حلقوں کو سنبھلنے کا موقع بھی مل جائے گا ، جن سے بلاول بھٹو زرداری یا پارٹی کے مخلص لوگ جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ اگر پرانی تنظیمیں تحلیل کرنے کے ساتھ ہی نئی تنظیموں کا اعلان بھی کر دیا جاتا تو قیادت کا خلاء پیدا نہ ہو تا ۔ جو کام تنظیمیں توڑنے کے بعد شروع کیا جائے گا ، وہ تنظیمیں توڑنے سے پہلے کیا جا سکتا تھا ۔ تنظیم نو کے لیے جو 5 رکنی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی ، اب ان پر زیادہ انحصار کرنا ہو گا کیونکہ پارٹی قیادت پر جلد تنظیم سازی کرنے کا دباؤ ہو گا ۔ کمیٹی کے ارکان اگر رشتہ داریاں اور دوستیاں نبھانے والے ہوئے تو نئی تنظیم سازی کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ بات بھی بہت اہم ہو گی کہ کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب کون کرے گا ۔ تنظیمیں توڑنے سے پہلے کمیٹیاں قائم کر دی جاتیں تو ان کی سفارشات پر غور کے لیے وقت بھی مل جاتا اور یہ بھی پتہ چل جاتا کہ ان سفارشات کے ذریعے کس طرح کی تنظیمیں وجود میں آ سکتی ہیں ۔ اس وقت پیپلز پارٹی میں نیچے سے صوبے کی سطح تک کوئی چین آف کمانڈ نہیں رہی ۔ سب کچھ عبوری کمیٹیوں کے رحم و کرم پر ہو گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے دنیا کے تجربات کو سامنے رکھتے تھے اور اپنے ملکی اور غیر ملکی دانش مند دوستوں سے وسیع تر مشاورت کرتے تھے ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جب یہ محسوس کیا کہ پارٹی کے ذمہ داران میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کا رحجان بڑھ گیا ہے تو پارٹی کے قیام کے 92 سال بعد 2013 میں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے نچلی سطح تک تمام تنظیموں کو یہ اختیار دیا کہ وہ پارٹی کو نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق چلانے کے لیے پارٹی کے قواعد و ضوابط مرتب کریں ۔ تمام تنظیموں کی سفارشات کو ’’ پارٹی دستاویز ‘‘ بنایا گیا اور اس دستاویز کی روشنی میں ازسر نو تنظیم کی گئی ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کے لیے نظریاتی ، فکری اور انتظامی مشق پہلے کر لی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ تنظیم نو کا یہ طریقہ اختیار کرنے سے پارٹی میں دھڑے بندیاں ہو سکتی ہیں ، اندرونی اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف بیرونی قوتوں کو تنظیم نو کے عمل پر اثر انداز ہونے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ان تمام مشکلات پر قابو پانا ہو گا ۔
تازہ ترین