• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
 کاش میرے دو صفحوں کے کالم میں اتنی گنجائش بھی ہوتی کہ میں ڈی سلوا اور راکی کی تصاویر یا ان کی روزانہ کی دلچسپ گفتگو کو یہاں بیان کرپاتی۔ بہرحال کچھ نہ کچھ تو بیان کرونگی کہ ان کی گفتگو کا محور ہمیشہ کسی نہ کسی سانحہ اور دیگر جرائم سے متعلق موضوع ہوتا۔ ڈی سلوا اور راکی دونوں کا تعلق گووا سے ہے گووا ویسے تو بھارت کی اجارہ داری تلے ہے مگر یہاں کے رہنے والے پرتگال سے بھی منسلک رہے ہیں اسی بنا پر انہیں یورپین نیشنلٹی بھی ملتی رہی ہے۔ یہ زیادہ تر کرسچن ہیں۔ بہت سی فلموں میں عموماً ان کا کلچر ان کا اپنے ہی لہجے میں اردو ہندی بولنا بھارتی فلموں میں خوب دکھایا جاتا ہے۔ ڈی سلوا اور راکی محلے بھر کے گارڈ ہیں۔ گارڈن صفائی کے دوران دونوں کا آج کل موضوع گفتگو ہے۔ ’’سشانت سنگھ کی موت کے ذمہ داروں کو گرفتار کرانا‘‘۔ دونوں موبائل پر خبریں لگا کر سنتے رہتے ہیں۔ بولتے ہیں کہ ’’ریا چکرورتی کو پکڑ لیا جائے۔ ڈی سلوا کہتا ہے‘‘۔ کاہے کو پولیس ریا چھوکری کو نہیں پکڑتا؟ راکی بولتا ہے ’’پکڑا جائے گا تو کا ہے کو فکر کرنا مانگتا‘‘۔ ڈی سلوا کہتا ۔ ’’کاہے کو فکر نہ کروں اس کے کا دن سے جوان چھوکرا جان سے گیا‘‘۔ راکی بحث کو آگے بڑھاتا کہ کاہے کوریا چکرورتی کو الزام دیتے ہو‘‘۔ مگر دونوں ہی اپنے اپنے طور پر احتجاج کرتے کہ اصلی مجرم ریا چکرورتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسی کا جوان بیٹا گیا۔ دونوں ہی دلجمعی سے اور توجہ کے ساتھ اصل مجرم گرفتار ہونے کی تمنا میں خبریں اشتیاق سے سنتے ہیں۔ کبھی فون کی بیٹری ختم ہونے پر آجائے تو فوراً فون چارج کرانے کو آجاتے ہیں کہ ’’ دیدی جلدی سے فون چارجر پر لگانا مانگتا ہے۔ ہم کسی بھی وقت ریا چکروتی کو گرفتار ہونے کی خوشخبری تم کو سنائے گا‘‘۔ خیر اس دن دونوں نے مطمئن ہوکر کام کیا دونوں ہی دل کے بہت اچھے انسان ہیں میں نے پوچھا کہ آج خبریں نہیں سنو گے؟ تو جواب آیا کہ اب ریا چکرورتی کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ہے پولیس کے تمام ادارے حرکت میں آگئے ہیں سخت پوچھ گوچھ شروع ہوگئی ہے کوئی مذاق ہے کسی کا جوان بیٹا اس کی وجہ سے چلا یگیا بس دیدی اصل مجرم دھری گئی۔میں نے کہا ڈی سلوا۔ آپ لوگ یعنی پورا بھارت ایک ہی خبر کے پیچھے پڑا ہے تم لوگوں کو کوئی اور کام نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ جھوٹی خبر نہیں ہے۔ جرم تو ہوا ہے نا میں نے کہا ہمارے یہاں بھی تو 3ستمبر کو اتنا گھنائونا اور دلخراش جرم ہوا کہ ایک عورت پر قیامت ٹوٹ گئی بچوں کے ساتھ وہ افسوس کرنے لگا کہ ’’اوہو وہ مجرم ابھی تک نہیں پکڑا گیا؟ اوہو کیا پولیس ہے تمہاری دیدی! آپ لوگوں کو احتجاج کرنا چاہئے کہ اصل مجرم پکڑا جائے۔ تاکہ معلوم ہو کہ اصل جرم اور اس کی کہانی کیا ہے‘‘۔ہر جرم کی کہانی اصلی مجرم ہی کے گرد گھومتی ہے اور اصل محرک اور اس کی محرکات سے زیادہ عمل کرنے والا نظروں میں آجاتا ہے۔ تحریک دینے والا، ابھارنے والا اور اکسانے والا درپردہ یا پس منظر ہی میں رہتا ہے۔ عوامل سے زیادہ عمل ظاہر ہو جاتا ہے بقول ڈی سلوا کے کہ ’’سشانت کو پھانسی پر ریا نے نہیں لٹکایا مگر وہ کارن بنی، اس نے حالات ایسے پیدا کئے کہ وہ خود کو پھانسی دینے پر مجبور ہوا۔ اسی لئے کہ اسے اکسایا گیا کہ پھندہ لگا ہی لو‘‘۔ جب سے موٹر وے پر حادثہ ہوا تب سے میرے ذہن میں ایک نقطہ بار بار کچو کے لگا رہا تھا کہ خاتون کی کیا مجبوری اور کون سے ایسے محرکات تھے جس نے اسے جلے پائوں کی بلی بننے پر مجبور کیا اس نے اپنی ماں کی چھائوں میں رات گزارنے کی بجائے بے چین ہوکر رخت سفر باندھا۔ جی ہاں! یہ رخت سفر ہی تھا کہ جس میں سوائے مٹی میں دفن ہونے کے باقی تمام لوازات موت ہی کے تھے۔ عادی مجرم عابد تو جرم کرکے کچے میں اترتا چلا گیا او جرم کی دلدل میں دھنس کر وہ کچے سے ہوتا ہوا دریائے سندھ سے جا لگا۔ سندھ اور دریائے سندھ کے دریمان پھر عام لوگوں کا گذر نہیں ہوتا۔ یہاں پھر ڈاکوئوں، عادی مجرموں، راہزن و قاتلوں کے ڈیرے ہوت ہیں جہاں پرندے بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں گزر سکتے پولیس او دوسرے ادارے تو دور کی بات ہے۔ ان کے ٹھکانوں کا پتہ لگانا مشکل ہے تو صرف کچے علاقے ، قصور کا علاقہ، علاقہ غیر اور سندھ کے دریا کے گرد گھیرا تنگ کردیا جائے تو مجرم و ملزم اشتہاری و غیراشتہاری سبھی سامنے آجائیں گے۔ یہ اس لئے ہم نے کہا کہ بار بار سننے کو مل رہا ہے عابد کچے سے گذر کر بھاگ گیا۔ واقعے کے فوری بعد کالم و مضامین، تبصرے ، تجزیئے اوربحث و مباحثہ چھڑ گیا۔ کہ مجرم کو ایسے سزا دی جائے ویسے سزا دی جائے۔ ٹھیک ہے عملی مجرموں کو جیسے چاہے سزا دے لیں مگر اخلاق کا جنازہ نکالنے والوں ، اصطلاحی مجرم و محرکاتی مجرموں کو جیسے چاہے سزا دے لیں مگر اخلاق کا جنازہ نکالنے والوں، اصطلاحی مجرم و محرکاتی مجرموں کو کون سزا دے گا۔ بات وہی ڈی سلوا اور راکی والی کی ریا چکرورتی کا دن تو بنی ہے نا سشانت کے گھر والوں کی تباہی کا تو بار بار بات دہرائی گئی بلکہ آج تو پولیس آفیسر نے بھی وہی بات کہہ دی کہ عورت کے خاوند نے اسے مجبور کیا کہ اسی وقت بچے لاہور سے گجرانوالہ لے جائو میکے اور سسرال کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے ۔ مزید یہ کہ وہ میکے جانے سے روکتا رہتا تھا شوہر کو معلوم نہ ہو جائے تو وہ اسے ناراض نہ کرنا چاہتی تھی خاتون نے کئی مرتبہ ایسے جھوٹ بولے ہوں گے اور خاتون کو جھوٹ بولنے پر مجبور کس نے کیا ا سکے سوہر کی جھوٹی انا نے یا معاشرے کی بگڑی تصویر نے ، معاشرے کے دقیانوسی سوچ اور خوف میں مبتلا بیوی کو رکھنے والے شوہر کی سوچ نے ، فرسودہ نظا نے کہ شوہر کو ہوا بناکر ایک عورت کے سر پر سنوار کر دیا جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے اس فرانس میں رہنے والے تنگ نظر شوہر سے پوچھئے کہ فرانس میں رہ کر گجرانوالہ کی سوچ کیوں اپنائے رکھی اس سانچے کے بعد وہ بھی دکھی ہو کہ فوراً پہنچایا نہیں؟ اس تنگ نظر مجرم کو اپنی سوچ پر ندامت ہوئی یا نہیں کہ تباہی کا اصل ذمہ دار وہی ہے۔ اور اس سے بھی بڑی مجرم وہ عورت خود ہے۔ جو فرانس میں پلی بڑھی وہیں تعلیم حاصل کی۔ اس نے تین بچوں کی ماں ہوکر اپنے میں اعتماد پیدا نہ کیا۔ صحیح اور غلط کی پہچان میں کانفیڈینس سے شوہر کو ٹھیک کرتی۔ کوئی غریب خاندان کی دبو قسم کی لڑکیاں نہیں ہوتیں یہ پڑھی لکھی اور وہ بھی فرانس میں پلی پڑھی کہ خوامخواہ کا جھوٹا رعب سہ سکیں۔ یا پھر بعض میاں بیوی کا رشتہ رہ گزر سا ہوتا ہے کہ سفر تو رہتا ہے مگر سمتیں درست نہیں ہوتیں۔ ہوتا تو اب یہ چاہئے کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کو جھوٹی انا کی بھینٹ نہ چڑھائے۔
تازہ ترین