• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انقلاب کے نعرے لگانا اور تبدیلی کے گانے بنانا بہت آسان ہے۔ آج کل الیکٹرانک میڈیا پر ایسے کئی اشتہارات نظر آتے ہیں جن میں ووٹروں سے خوبصورت موسیقی کی دھنوں پر کہا جا رہا ہے کہ 11/ مئی کو اٹھو اور بدلو پاکستان۔ اس معاملے میں تو یہ خاکسار بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ میں نے بھی بار بار ٹی وی پر کہا کہ گیارہ مئی کو گھروں میں نہ بیٹھئے گا اور ووٹ ڈال کر اپنی تقدیر بدل ڈالیں لیکن آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ ٹی وی پر باتیں کرنا اور اشتہار چلانا بہت آسان ہے۔ گیارہ مئی کو ووٹ کے ذریعہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں تو تبدیلی آ سکتی ہے لیکن پورے پاکستان میں تبدیلی نہیں آ سکتی کیونکہ نہ تو ووٹر محفوظ ہے نہ امیدوار محفوظ ہے۔ چند ہفتے قبل میں بلوچستان کے ضلع خضدار گیا تو میں نے اپنا قارئین اور ناظرین کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ بلوچستان میں شدید عدم تحفظ پایا جاتا ہے اور انتخابات کے لئے ماحول سازگار نہیں۔ پھر میں پشاور اور قبائلی علاقوں میں گیا۔ باجوڑ میں صورتحال کچھ بہتر تھی لیکن وہاں بھی خود کش حملہ ہو گیا۔ میری موجودگی میں ہی حاجی غلام احمد بلور کی ایک کارنر میٹنگ پر حملہ ہو گیا۔ گزشتہ ہفتے میں نے کراچی کے کچھ انتخابی حلقوں کے دورے کا پروگرام بنایا لیکن امیدوار اتنے خوفزدہ تھے کہ میرے ساتھ اپنے حلقوں میں گھومنے سے بھی گریز کر رہے تھے لہٰذا میں نے اپنا پروگرام ملتوی کر دیا۔ اب کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں تین جماعتوں اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے انتخابی دفاتر پر بم حملے ہو رہے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی تقاریر میں ایک دوسرے پر ذاتی حملوں کا نوٹس تو لے لیا لیکن انتخابی دفاتر پر بم حملوں کا نوٹس نہیں لیا۔ جب میں نے یہ لکھا تھا کہ خضدار سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں الیکشن کمیشن کے دفاتر بند ہیں تو کچھ لوگوں نے کہا کہ میں مایوسی پھیلا رہا ہوں، بلوچستان کے حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔ اب ہزاروں سرکاری اساتذہ نے بلوچستان میں الیکشن ڈیوٹی ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے جن گیارہ اضلاع میں سرکاری اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی کرنے سے انکار کیا ہے ان میں نوشکی، چاغی، مستونگ، قلات، خضدار، آواران، خاران، واشوک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔ کچھ علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسند اساتذہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور کچھ علاقوں میں پاکستان کے حامی عسکریت پسند اساتذہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر دھمکیاں دینے والے الیکشن کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو، اختر مینگل یا شاہ زین بگٹی نہ جیت جائیں۔ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ اگر رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ووٹ کے ذریعہ تبدیلی نہیں آ سکتی تو پھر اس الیکشن کا کیا فائدہ؟ میں نے ہمیشہ الیکشن ملتوی کرنے کی مخالفت کی اور آج بھی مخالفت کرتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بلوچستان میں کیوں سویا رہا؟ الیکشن کمیشن کے چند افسران نے کوئٹہ جا کر کچھ سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں لیکن پُر امن انتخابات کے انعقاد کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہ کئے اور اس لئے آج بلوچستان کے اساتذہ الیکشن ڈیوٹی کے لئے تیار نہیں۔ اس نا اہلی پر الیکشن کمیشن کے پاس کیا جواب ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی صورتحال بھی بلوچستان اور شمالی وزیرستان سے مختلف نہیں۔ کراچی میں دہشت گردوں کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر بم حملوں کی زد میں ہیں۔ پولیس اور خفیہ ادارے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ غور کیجئے کہ بارود سے بھری ہوئی گاڑی اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں آئے تو فوری طور پر پکڑ لی جاتی ہے اور پولیس والے ٹی وی کیمروں کے سامنے گاڑی سے بارود برآمد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ملتان میں عبدالقادر گیلانی کی گاڑی سے نائن ایم ایم کا پستول بھی برآمد کر لیا جاتا ہے لیکن کراچی میں بم دھماکے کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ الیکشن کمیشن کو یہ تو فکر ہے کہ عمران خان کی زبان و بیان میں احتیاط نظر آئے لیکن اسے یہ غرض نہیں کہ کراچی میں بم دھماکے کیسے روکے جائیں؟
آئین کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کے پُر امن انعقاد کیلئے فوج اور رینجرز سمیت کسی بھی ادارے کو اپنی معاونت کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ ماضی قریب میں فوجی قیادت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن سے ہرممکن تعاون کیا جائے گا۔ کیا الیکشن کمیشن یہ بتانا پسند کرے گا کہ ابھی تک اس نے بلوچستان، کراچی اور خیبر پختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں فوج سے کیا تعاون مانگا ہے؟ افسوس کا مقام ہے کہ عمران خان نے پنجاب میں اپنے سیاسی جلسے جلوس بغیر کسی خطرے کے منعقد کئے لیکن یکم مئی کو کراچی میں اپنا جلسہ ملتوی کر دیا۔ اگر عمران خان کراچی یا خضدار میں جلسہ نہیں کر سکتے تو پھر وہ کون سی تبدیلی کی بات کرتے ہیں؟ اگر نواز شریف کے پاس بلوچستان کے اکثر علاقوں میں امیدوار ہی نہیں تو پاکستان کے مستقبل میں روشنی کیسے بھری جائے گی؟ اگر بلاول بھٹو زرداری صاحب دبئی میں بیٹھ کر ویڈیو بیانات کے ذریعہ انتخابی مہم چلائیں گے تو میں کس منہ سے یہ کہوں کہ گیارہ مئی کو گھروں سے نکلو اور ووٹ ڈال کر اپنی تقدیر بدل دو۔ ہاں گیارہ مئی کو پنجاب میں گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنا آسان ہے لیکن کیا صرف پنجاب ہی پاکستان ہے۔ کیا بلوچستان کے سرکاری اساتذہ کو درپیش خطرات کے بارے میں سوچنا پاکستانیوں کا فرض نہیں؟ کیا پشاور کے گلیوں بازاروں میں موت کی دہشت پھیلانے والوں کو روکنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں؟ کیا کراچی میں الیکشن مہم کو خون کی ہولی میں بدلنے والوں پر ہاتھ ڈالنا ضروری نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کو اس طرف توجہ نہیں چاہئے؟
یہاں یہ نکتہ بہت قابل غور ہے کہ پچھلے پانچ سال تک مرکز میں پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کی حکومت تھی۔ آج بھی سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انہی جماعتوں کی من پسند حکومتیں ہیں اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا ان حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے اب ان جماعتوں پر حملوں کا منصوبہ بنا لیا ہے جو پہلے طالبان کا نشانہ نہیں تھیں کیونکہ یہ جماعتیں طالبان کے حملوں کی مذمت کر رہی ہیں۔ کسی پر حملہ ہو یا نہ ہو لیکن ہمارے ریاستی ادارے چاہیں تو یہ حملے روک سکتے ہیں۔ مشرف پر حملے کے لئے بارود سے بھری گاڑی پکڑی جا سکتی ہے تو غلام احمد بلور پر حملے کے لئے آنے والے کا پتہ کیوں نہیں چل سکتا؟ اگر ہم واقعی گیارہ مئی کو ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرنا ہو گا کہ صرف سیاستدانوں کی تقاریر میں ذاتیحملوں کا نوٹس نہ لے بلکہ بم حملوں کا بھی نوٹس لے۔ بلوچستان، کراچی اور پشاور کو محفوظ بنانے کے لئے فوج سے مدد لی جائے اور اگر خفیہ ادارے بم حملے نہیں روک سکتے تو ان کے سربراہوں کو تبدیل کر دیا جائے۔
تازہ ترین