• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں ٹی وی چینلز کی موجیں ہی موجیں ہیں، انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی اشتہاری مہم زوروں پر ہے، پی پی پی کے تمام اشتہارات کا محور و مرکز یہ ہے کہ اس کے لیڈروں نے ہر دور میں ظلم سہے ہیں تاہم ان مظالم کا کوئی ذکر نہیں جو ان کے دور میں لوڈ شیڈنگ ،کرپشن اور متعدد دوسرے حوالوں سے عوام کو سہنا پڑے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف پی پی پی سے بھی زیادہ پرابلم کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں، چنانچہ اگر عوام ا ن سے ان کے ماضی کا حساب مانگیں تو جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں اس کی حمایت ہی ان کی ماضی کی ”کارکردگی“ ہے ۔ایک خواجہ سرا مرگیا تو فرشتے آئے اور کہا”حساب دو!“اس نے جل کر کہا”مجھے دیا کیا تھا جس کا حساب لینے آگئے ہو؟“ تحریک انصاف بھی اس حوالے سے مخمصے میں ہے۔ 1997ء کے الیکشن میں”قائد تحریک“ عمران خان آٹھ نشستوں سے کھڑے ہوئے اور کسی ایک نشست سے بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کے105امیدوار بھی بہت ”امتیازی“ حیثیت سے ہار گئے۔ عوام نے عمران خاں سمیت ان سب کو مسترد کردیا البتہ2002ء میں مشرف کی حمایت کے صلے میں انہیں میانوالی کی سیٹ مل گئی، سو عوام نے اپنے ان خادموں کو خدمت کا موقع ہی نہیں دیا، چنانچہ اگر عوام ان سے کہیں کہ”حساب دو“ تو وہ بجا طور پر کہیں گے”ہمیں دیا کیا تھا جس کا حساب مانگنے آگئے ہو؟“ سو اس جماعت کی یہ مجبوری ہے کہ یہ اپنے اشتہارات میں ملک و قوم کے لئے اپنی گرانقدر خدمات میں عمران خاں کا نماز پڑھنا اور ان کا کرکٹ کھیلنا ہی گنوا سکتی ہے یا اس ہسپتال کی تصویر دکھاتی ہے جس کے لئے زمین میاں نواز شریف کی حکومت نے عطیہ کی تھی اور جس کا سنگ بنیاد بھی میاں صاحب ہی نے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ میاں برادران ذاتی جیب سے اس ہسپتال کو لاکھوں روپے بھی دیتے رہے تاہم اس ہسپتال کا سنگ بنیاد اب اکھاڑ دیا گیا ہے جس پر میاں نواز شریف کا نام کندہ تھا۔ میاں صاحب نے تو اپنے دور حکومت میں عمران خاں کی تحریری درخواست پر ایک قیمتی پلاٹ بھی انہیں عطا کیا تھا ،دیکھیں اس پلاٹ سے وہ کب نجات حاصل کرتے ہیں!
اب اس کا کیا علاج کہ لے دے کر مسلم لیگ(ن) ہی ایک ایسی جماعت رہ جاتی ہے جو اپنی اشتہاری مہم اپنی کارکردگی کے حوالے سے چلا رہی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف ٹی وی پر جن ترقیاتی کاموں کے کلپ چلا رہی ہے وہ دیکھ کر طبیعت میں گدگدی سی ہوتی ہے کہ ان علاقوں سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، یہ اس کے مستقل کے عزائم ہیں نہیں وہی جو ”یہ کریں گے، وہ کریں گے“ کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اشتہاری مہم اس کی ماضی کی کارکردگی کے حوالے سے ہے جس میں موٹر وے، میٹرو بس، ائیر پورٹس، گوادر کی بندرگاہ، دانش سکول، میرٹ کی پابندی، اجالا سکیم، لیپ ٹاپس اور اس نوع کے دیگر بے شمار کام شامل ہیں جو انہوں نے دو ، دو سال کے مختصر ا قتدار میں عوام کی فلاح و بہود کے لئے کئے اس لحاظ سے صرف مسلم لیگ ا س دعویٰ پر ا لیکشن لڑرہی ہے کہ اس نے ماضی میں بھی ڈیلیور کیا تھا اور مستقبل میں بھی کرے گی۔
الیکشن کی اس گہما گہمی میں اور بھی بہت سی دلچسپ باتیں ،نعرے اور دعوے سننے کو مل رہے ہیں۔ عمران خان کا سونامی کا دعویٰ تو خیر پرانا ہوگیا ہے لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ خود کو1970ء کے بھٹو سے Compare کرتے ہیں۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ وہ خود کو شیخ مجیب الرحمان سےCompareنہیں کرتے ورنہ اصل سونامی تو وہ تھی جس میں انہوں نے مشرقی پاکستان کی160میں سے 158نشستیں جیت لی تھیں اور وہ یوں بھی سونامی تھی کہ اس کے نتیجے میں خوفناک تباہی آئی۔ ملک دو لخت ہوگیا اور”نیا پاکستان“ وجود میں آگیا۔ خاں صاحب بھی پاکستانی عوام کو”نیا پاکستان“ کے خواب دکھا رہے ہیں…اللہ خیر کرے۔ خاں صاحب متضاد دعووں کے بھی چمپئن ہیں کچھ روز قبل تک وہ خود کو سب سے دلیر رہنما قرار دیتے تھے مگر پھر بلٹ پروف سکرین کے پیچھے پائے گئے۔ بلٹ پروف گاڑی تو خیر بہت عرصے سے ان کے زیر استعمال ہے ۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ پیسہ جنون کا مقابلہ نہیں کرسکتا، دوسری طرف لوگوں سے الیکشن کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں۔ ایک طرف تو کامیابی کا یقین اس حد تک ہے کہ ایک ٹاک شو میں میزبان کو یہ تحریر لکھ کر اپنے دستخطوں کے ساتھ پیش کردی کہ تحریک انصاف انتخابات میں سویپ کریگی اور دوسری طرف وہ خود چار نشستوں سے امیدوار ہیں ،اگر انہیں اپنی کامیابی کا اتنا ہی یقین ہے تو پھر صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کرواتے اور چونکہ”فقید المثال“ کامیابی تو انہیں پورے ملک سے نصیب ہونی ہے اس لئے بہتر ہو تاکہ صرف پنجاب اور پشاور تک محدود نہ رہتے بلکہ خضدار، پشین یا گڑھی خدا بخش اور جیکب آباد سے بھی انتخابات میں حصہ لیتے یا پھر اتنا ہی کرلیتے کہ80فیصد نوجواں جن کو ٹکٹ دینے کا دعویٰ پی ٹی آئی نے کیا ہے ان کی اکثریت کو بھی ان علاقوں میں ٹکٹ دینے کی بجائے پنجاب کے شہری علاقوں میں ٹکٹ دئیے جاتے جہاں پی ٹی آئی کے کچھ نہ کچھ ووٹرز بہرحال موجود ہیں۔
عمران خان کے بلند و بانگ دعوے سن کر مجھے رہ رہ کر ایک اور شخصیت کا خیال دل میں آتا ہے جس کا ذکر میں ایک کالم میں پہلے بھی کرچکا ہوں اور وہ ہیں انجینئر آغا وقار۔ انہوں نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے اس دعویٰ پر ذی شعور افراد نے بہت اعتراض کیا مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ آغا وقار کو اپنا فارمولاثابت کرنے کا ایک موقع ملنا چاہئے۔ آغا وقار کا دعویٰ تھا کہ وہ چند دنوں میں توانائی کا بحران ختم کرکے ملک کو امیر ترین ملک بنادیں گے۔ کچھ سادہ لوح لوگوں نے کسی سائنسدان کی بات خاطر میں لائے بغیر آغا وقار کی حمایت شروع کردی ا ور کہا کہ انہیں ایک موقع ملنا چاہئے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال عمران خان کی بھی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ90دن میں کرپشن ختم ہوجائے گی۔ ملک کا ریونیو ایک کھرب سے دو کھرب ہوجائے گا۔ غیر ملکی سرمایہ داری میں ریکارڈ اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اگر کسی نے آغا وقار کو پانی سے کار چلانے کا موقع نہیں دیا تو کیا ”سیاست کے آغاوقار “ کو قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کا ایک موقع دے دینا چاہئے؟
تازہ ترین