(عکّاسی: اسرائیل انصاری)
’’ ارے بہن! تمہارے بیٹے کی شادی کو تیسرا سال لگ گیا ہے، مگر گھر سے کسی بچّے کی رونے، ہنسنے کی آواز نہیں آ رہی۔ میری مانو، تو بہو کو کسی کو دِکھاؤ۔ کسی نے تعویز گنڈے نہ کروا دیے ہوں۔کہو تو کسی سے بات کروں۔‘‘ ’’ہائے کتنی حسرتوں سے بچّے کے سَر پر سہرا باندھا تھا، مگر بے چارے کی قسمت ہی کھوٹی نکلی، پتا نہیں بچّوں کو کبھی گود میں کِھلا بھی سکے گا یا نہیں؟‘‘’’ دروزاہ بند کرلینا، مَیں ذرا منشی حکیم سے دوا اور تعویز لے آؤں۔ رات بھی بیٹی کا فون آیا تھا۔ ساس تو بے اولادی کے طعنے دے کر اُسے مار ہی ڈالے گی۔‘‘ ’’ دیکھو بیٹا! اب مزید کتنا اور کس بات کا انتظار کرنا ہے۔ہمارا بھی پوتے، پوتیوں کے لیے دِل مچلتا ہے۔ اگر اِس عورت سے اولاد نہیں لکھی، تو دوسری کرلو۔ آخر اِس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘ ’’ مَیں بہت شرمندہ ہوں، مگر کیا کروں۔ اب مجھ میں گھر والوں کا دباؤ برداشت کرنے کی ہمّت نہیں رہی۔
دوسری شادی ہی تو کر رہا ہوں، تمھیں چھوڑوں گا تھوڑی۔ یقین جانو، تمھیں پہلے کی طرح خوش رکھوں گا۔‘‘اکثر و بیش تر بے اولاد جوڑوں کی کچھ ایسی ہی کہانیاں ہیں۔ بچّے کسے اچھے نہیں لگتے؟ سب ہی کا دل چاہتا ہے کہ اُن کے آنگن میں چہل پہل رہے۔ شادی کے ابتدائی سال، دو سال تو ہنستے کھیلتے گزر جاتے ہیں، لیکن اگر زیادہ عرصے تک گود ہَری نہ ہو، تو سُسرالی، بہو کو عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ پہلے اشاروں، کنایوں میں بات ہوتی ہے اور پھر گلے شکووں تک جا پہنچتی ہے۔ مشورے، طعنے اور علاج ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے، تو عورت کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے صاحب زادے کے لیے رشتے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔زیادہ کام’’ کانا پھوسی الیون‘‘ بگاڑتی ہے۔ رشتے دار اور ملنے جُلنے والے سب کچھ جاننے کے باوجود پہلا سوال یہی کرتے ہیں’’ کوئی بچّہ وچّہ ہوا؟‘‘ اور جواب میں گھر کی بڑی بوڑھیاں بہو کو گھورتے ہوئے اِک آہ بھر کے خاموش ہوجاتی ہیں۔
اِس بار بار کے سوال سے بہو کے دِل پر جو گزرتی ہے، وہی جانتی ہے۔بس یوں جانیے کہ اِک برچھی کی اَنی سی، دل چیر جاتی ہے۔دوسری طرف، لڑکی کے میکے والے بھی سُولی پر لٹکے رہتے ہیں۔جہاں کہیں سے کچھ اُمید دِکھائی دیتی ہے، بہن، بیٹی کا گھر بسانے کے لیے اُسی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اولاد نہ ہونے کی’’ مجرم‘‘ عورت ہی ٹھہرتی ہے، اِس لیے اُس کے علاج معالجے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ پیر فقیر، عامل، حکیموں میں اچھے بھی ہوتے ہیں، نیز، دُعا اور دوا سے بھی کسے انکار ہوسکتا ہے، مگر تجربہ یہی ہے کہ اِس طرح کے لوگوں کی اکثریت’’ رانگ نمبر‘‘ ہے۔نہ جانے کتنے گھرانے ان نام نہاد بابوں اور بانجھ پن کے شرطیہ علاج کے دعوے داروں کے چکروں میں پڑ کر تباہ و برباد ہوگئے۔ بہت سے افراد اِدھر اُدھر جانے کی بجائے ماہر ڈاکٹرز سے رجوع کرتے ہیں، جو مرد و عورت، دونوں کے طبّی معاینے کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ بے اولادی کا علاج خاصا منہگا ہے۔
جیب میں آٹھ، دس لاکھ روپے ہوں، تو تب ہی کسی اچھے اسپتال کا رُخ کیا جاسکتا ہے۔ اولاد دینا نہ دینا، اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم، اسلام نے علاج معالجے کی اہمیت پر بھی بہت زور دیا ہے، تو اگر بے اولادی کا سبب کوئی مرض ہے، تو اب اُس کے علاج کے لیے لاکھوں روپوں کی ضرورت نہیں رہی۔جی ہاں، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی نے’’ سندھ ری پروڈکٹو اینڈ جینیٹک ہیلتھ سینٹر‘‘ کے نام سے ایک ایسا شعبہ قائم کیا ہے، جو پبلک سیکٹر میں قائم ہونے والا پاکستان کا پہلا اور واحد مرکز ہے، جہاں اِس طرح کے امراض کا نجی اسپتالوں کے مقابلے میں تقریباً مفت علاج کیا جا رہا ہے۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی جانے کے لیے فلائی اوور سے نیچے اُترتے ہوئے، جہاں سے جناح اسپتال کی عمارت شروع ہوتی ہے، بائیں ہاتھ پر پہلے دروازے سے اندر داخل ہوں،(جسے جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کا کیمپس ٹو کہا جاتا ہے) ،تو سامنے اِس مرکز کی عمارت ہے، جس پر نمایاں طور پر اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ یہ مرکز، جناح اسپتال کے کارڈیو کے سامنے سڑک پار واقع ہے۔مرکز کے قیام کا علم ہوا، تو فوری طور پر دورہ کیا تاکہ جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین بھی مفادِ عامّہ کے اِس کام سے آگاہ ہوسکیں۔
پروفیسر سیّد محمّد طارق رفیع، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ اُنھوں نے اِس پراجیکٹ سے متعلق بتایا’’ یہ ہمارا بچّوں سے محروم جوڑوں کے لیے’’ آئی وی ایف‘‘ یعنی ’’ In Vitro Fertilization‘‘ پروگرام ہے۔یہ کوئی نئی تیکنیک نہیں ہے، گزشتہ 40 برسوں سے پاکستان میں اِس طریقۂ علاج سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ البتہ نئی بات یہ ہے کہ اب تک یہ محض نجی اسپتالوں ہی تک محدود تھا، جہاں علاج معالجے پر آٹھ سے دس لاکھ روپے تک کے اخراجات آتے ہیں، جب کہ اب ہم نے پاکستان میں پہلی بار اِس کا پبلک سیکٹر میں آغاز کیا ہے، تو یوں اب محض ڈیڑھ لاکھ روپے تک میں بانجھ پن کے مختلف امراض کا علاج کروایا جا سکے گا۔ ‘‘’’ اور اگر کوئی اِتنی رقم بھی نہ دے سکے تو…؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے خوش خبری سُنائی کہ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مریض کے لیے پورے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کرنے ضروری نہیں ۔ ممکن ہے، ابتدائی علاج ہی سے اُنھیں فائدہ ہو جائے۔
تاہم، اگر کسی کے لیے علاج کے آخری مرحلے تک جانا ضروری ہو، تو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ’’ پاکستان بیت المال‘‘ کے ذریعے مستحق افراد کو مالی معاونت فراہم کر سکیں۔‘‘ڈاکٹر طارق رفیع نے شعبے کی مالی ضروریات اور مستقبل کے ارادوں سے متعلق ایک سوال پر بتایا’’ بلاشبہ آئی وی ایف ایک منہگا طریقۂ علاج ہے۔ پھر یہ کہ ہم محض مفادِ عامّہ کے لیے کام کر رہے ہیں، منافع کمانا مقصود نہیں، اِس لیے بھی ہم پر زیادہ مالی بوجھ پڑ رہا ہے۔ البتہ، اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس پہلے ہی سے مختلف شعبے موجود ہیں، جو اِس نئے شعبے کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ہماری اپنی لیبارٹری ہے، جس میں ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ سمیت بہت سے ٹیسٹس کی سہولت موجود ہے۔
کسی بھی قسم کی سرجری کی ضرورت پر جناح اسپتال کے آپریشن تھیٹر سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ تاہم، اِس سب کے باوجود ہمیں مخیّر افراد کے تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے۔ہمیں مزید جدید ترین آلات درکار ہیں اور پھر یہ کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے پر اُنھیں سنبھالنا فی الحال بہت مشکل ہوگا۔ اِس کے لیے ہمیں جہاں عمارت میں توسیع کی ضرورت پڑے گی، وہیں علاج پر اُٹھنے والے اخراجات کی مَد میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے مالی وسائل درکار ہوں گے۔ کراچی اِس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ یہاں کے مخیّر افراد اِس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں اور اِس کی ایک واضح مثال خود جناح اسپتال ہے، جس کے بہت سے شعبے اِسی تعاون کے مظہر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سیّد طارق رفیع سے ملاقات کے بعد’’SRGHC‘‘ کا دورہ کیا، جہاں لاک ڈاؤن کے اختتام پر پہلے روز کام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔ مرکز میں کئی مریض موجود تھے، جب کہ آنے والوں کو کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کے تحت ہی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔وہاں ہماری ملاقات معروف گائنالوجسٹ، ڈاکٹر نگہت شاہ سے کروائی گئی، جو’’ سندھ تولیدی اور جینیاتی صحت مرکز‘‘ کی سربراہ ہیں۔ وہ اِس شعبے میں 20 سالہ تجربے کی حامل ہیں۔
کئی برسوں سے آغا خان یونی ورسٹی اسپتال میں بطور کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جب کہ گزشتہ پانچ برس سے جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے شعبۂ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سے وابستہ ہیں۔’’ Reproductive Endocrinology‘‘ اُن کی دِل چسپی اور مہارت کا خاص میدان ہے۔ اُنھوں نے میڈیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ یونی ورسٹی میں تدریسی خدمات کے ساتھ تربیت، نصاب سازی، کورس ڈیزائننگ جیسی اہم خدمات بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ڈاکٹر نگہت شاہ نے ’’SRGHC‘‘ کے قیام کی ضرورت و اہمیت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ اِس مرکز کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بے اولاد جوڑوں کو ان کی محرومی دُور کرنے میں معاونت فراہم کی جائے۔
اب سائنسی طور پر ایسے بیش تر امراض کا علاج ممکن ہے، جو بچّوں کی پیدائش میں رکاوٹ بنتے ہیں۔نیز، یہاں جینیٹک ایشوز پر بھی کام ہو رہا ہے، جو کزنز میرجز وغیرہ کی بنا پر جنم لیتے ہیں۔اِس مرکز کی اہمیت کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا کا بھی پبلک سیکٹر میں کام کرنے والا اپنی نوعیت کا واحد مرکز ہے۔ گو کہ اِس طرح کا ایک ادارہ برطانیہ میں کام کر رہا ہے، مگر وہاں جوڑوں کو طویل انتظار کی زحمت اُٹھانا پڑتی ہے۔ اگر کسی کی 30 برس کی عُمر میں شادی ہو، تو اُس کا نمبر 36 برس کی عُمر میں آئے گا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ بھارت کا رُخ کرتے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی’’ میڈیکل ٹورازم مارکیٹ‘‘ ہے۔ وہاں تولیدی جرثوموں اور گُردوں وغیرہ کی خرید و فروخت عام ہے، لیکن یہ ایک الگ معاملہ ہے، جو قانونی اور اسلامی لحاظ سے درست نہیں۔نیز، یہ بھی ذہن میں رہے کہ نجی شعبے میں بے اولادی کے مسائل کا علاج خاصا منہگا ہے، گویا بہت سے بیمار جوڑے محض اِس لیے اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں کہ اُن کے پاس علاج کے لیے لاکھوں روپے نہیں ۔ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے اِس مرکز نے یہ مسئلہ بھی بہت حد تک حل کردیا ہے۔ اب امیر اور غریب یک ساں طور پر اپنا علاج کروا پائیں گے۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے مرکز میں موجود سہولتوں کے ضمن میں بتایا’’ہمارے ہاں مرد و عورت کے ابتدائی معاینے، ٹیسٹس، الٹرا ساؤنڈ، اعضاء کی جانچ پڑتال، اندرونی تشخیص اور بنیادی علاج سمیت جوڑوں کو ہر طرح کی مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔
اِس مقصد کے لیے بہترین آلات کے ساتھ تربیت یافتہ عملہ موجود ہے، جن میں سے بیش تر شہر کے معروف نجی اسپتالوں میں بھی خدمات انجام دے چُکے ہیں۔‘‘ علاج کے مراحل سے متعلق اُن کا کہنا تھا’’ جب ہمارے پاس کوئی جوڑا آتا ہے، تو سب سے پہلے ہم کیس ہسٹری لیتے ہیں، جیسے شادی کی مدّت، کوئی ظاہری مسئلہ اور کروائے گئے علاج سے متعلق معلومات لی جاتی ہیں۔پھر مرد و عورت کا تفصیلی معاینہ کیا جاتا ہے، جس میں اندرونی تشخیص اور اسپرم وغیرہ کا تجزیہ بھی شامل ہے۔ اِن مراحل سے گزرنے پر کیس کافی حد تک سامنے آ جاتا ہے۔ اگر بات محض ادویہ کے استعمال سے بنتی نظر آئے، تو صرف ادویہ ہی دی جاتی ہیں۔
دوسری صُورت میں جوڑے کے سامنے مختلف طریقۂ علاج رکھ دئیے جاتے ہیں تاکہ جو وہ مناسب سمجھیں، اُس پر علاج آگے بڑھایا جاسکے۔ اِس ضمن میں ہم اُن کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔‘‘ اِس سوال پر کہ وہ مختلف طریقے کون سے ہیں؟ ڈاکٹر نگہت شاہ نے تفصیل سے بتایا’’ایک طریقہ تو دوا کے استعمال کا ہے، لیکن اگر وہ کارگر نہ ہو، تو انجیکشن کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اُس کے بعد ہم’’ آئی او آئی‘‘ کی طرف جاتے ہیں۔ اُس سے بھی فائدہ نہ ہونے پر ’’ آئی وی ایف‘‘ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور آخری مرحلہ’’ اکسی‘‘ ہے۔ آئی وی ایف یہ ہوتا ہے، جیسے ہم نے حلوہ بنا کر مریض کے سامنے رکھ دیا، جو اُس نے کھانا ہے، جب کہ اکسی میں ہم صرف حلوہ ہی نہیں بناتے، اُنھیں خود کِھلاتے بھی ہیں۔ اِس طریقۂ علاج میں لیب میں نمو پانے والی ایک نئی زندگی عورت میں منتقل کی جاتی ہے۔
اِسے سائنسی طور پر یوں سمجھیے کہ آئی وی ایف میں بیوی کے بیضے اور شوہر کے اسپرمز ایک ڈش میں چھوڑ دیتے ہیں، جو اسپرم طاقت وَر ہوتا ہے، وہ ملاپ سے نئی زندگی بناتا ہے۔ جب کہ اکسی میں ہم اسپرم کو انڈے میں پرو کے فرٹیلائزیشن بھی کرواتے ہیں اور جب سیلز ملٹی پلائی ہونا شروع ہوجائیں، تو اُس کا مطلب نئی زندگی کی شروعات ہے، تب ہم اُسے عورت میں منتقل کر دیتے ہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اِن مراحل کے دَوران تمام تر شرعی اور قانونی تقاضوں کی مکمل پاس داری کی جاتی ہے۔ اِس ضمن میں ایک ایسے بورڈ کا قیام بھی زیرِ غور ہے، جس میں شرعی اور قانونی اُمور کے ماہرین شامل ہوں۔‘‘’’ علاج کا دورانیہ کتنا ہے اور کام یابی کے امکانات کتنے فی صد ہوتے ہیں؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ ابتدائی معائنہ اور مرض کی تشخیص ایک ماہ میں مکمل ہوجاتی ہے، جس کے بعد علاج کے مراحل ہیں اور اس کا دارومدار جوڑے ہی پر ہوتا ہے کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور کتنی دل چسپی، توجّہ سے علاج کے مراحل طے کرتے ہیں۔
جہاں تک کام یابی کی بات ہے، تو یہ واضح رہے، ڈاکٹر اولاد نہیں دے سکتا۔ اولاد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوگی۔ ہم صرف امراض کا علاج کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے دنیا بھر میں علاج معالجے سے بچّوں کی پیدائش کی شرح 30 فی صد تک ہے۔‘‘
پہلے پورے پورے محلّوں میں کوئی ایک آدھ ہی بے اولاد جوڑا نظر آتا تھا، مگر اب نہ جانے ایسا کیا ہوا ہے کہ بانجھ پن وبا کی سی صُورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔خاندان، گلی محلّے، دفتر جہاں نظر دوڑائیں، بے اولاد افراد سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ہم نے ڈاکٹر نگہت شاہ سے پوچھا،’’کیا یہ مسئلہ صرف پاکستان میں ہے؟ اور اِس کی کیا وجوہ ہیں؟‘‘ تو اُنھوں نے جواب دیا’’ دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، پوری دنیا میں فرٹیلٹی ریٹ کم ہوا ہے۔کئی ممالک میں تو صُورتِ حال بے حد تشویش ناک ہے۔جہاں تک اسباب کی بات ہے، تو اِس کی بنیادی وجہ طرزِ حیات ہے۔
فرد کے معمولات اِس ضمن میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جاپان وغیرہ جیسے ممالک میں، جہاں سب سے زیادہ آئی وی ایف طریقۂ علاج اختیار کیا جاتا ہے، ایک جائزے سے پتا چلا کہ مَردوں میں لیپ ٹاپ کی ریڈی ایشن سے اسپرم متاثر ہو رہے ہیں کہ وہ گھنٹوں اُنھیں گود میں رکھے استعمال کرتے ہیں۔ہم لیب میں پرفیوم یا لپ اسٹک تک استعمال نہیں کرتے اور صابن بھی وہ ہوتا ہے،جو عُمرے یا حج کے دَوران استعمال کیا جاتا ہے کہ اسپرم کا معاملہ بہت حسّاس ہے۔
اِسی لیے اُنہیں جسم کے باہر زندہ اور صحت مند رکھنے کے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ پھر ناقص خوارک، ورزش نہ کرنا، آلودگی، ذہنی دباؤ اور بعض دیگر امراض بھی بانجھ پن میں اضافے کا سبب ہیں۔ نیز، شادی بیاہ میں تاخیر بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگر بچّوں کی 25 سال کی عُمر تک شادی کردی جائے، تو افزائشِ نسل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ خواتین میں 35 اور مَردوں میں 50 سال کے بعد تولیدی صلاحیتوں میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔‘‘اِن فرٹیلیٹی سے متعلق ہمارے یہاں کئی توہمّات بھی پائے جاتے ہیں، جس کے سبب یہ ایک طبّی ہی نہیں، سماجی مسئلہ بھی بن چُکا ہے، یہاں تک کہ اِس کے باعث گھرانے اجڑ رہے ہیں، خاندان باہم دست و گریباں ہیں، رقوم لُٹائی جا رہی ہیں، علاج کی آڑ میں عزّتیں، عصمتیں تک تار تار ہو رہی ہیں، تو اِس پس منظر میں پوچھے گئے سوالات پر ڈاکٹر نگہت شاہ کا کہنا تھا کہ’’ واقعی صُورتِ حال بہت افسوس ناک ہے، خاص طور پر جو خواتین ہمارے پاس آتی ہیں، اُن کی بہت بُری حالت ہوتی ہے۔ ڈری، سہمی ہوئی۔
جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس کرب سے گزر رہی ہیں اور بے اولادی کے طعنے اُن کے لیے کیسے روگ بنے ہوئے ہیں۔ہم اُن کی نفسیاتی طور پر بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں یونی ورسٹی میں نفسیاتی علاج معالجے کے لیے باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے، جس کا ہمیں تعاون حاصل ہے۔یہ تصوّر کہ بے اولاد ہونے کی ذمّے دار عورت ہی ہے، سائنسی طور پر ایک لغو بات ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق، اِس طرح کے کیسز میں مرد و عورت کا تناسب تقریباً برابر ہے، بلکہ مَردوں کی شرح کچھ بلند ہے۔پھر یہ کہ بیش تر جوڑے خود کو فزیکلی صحت مند سمجھتے ہوئے یا بے اولادی کا سبب تعویز گنڈوں، جادو یا جنّات کے سائے وغیرہ کو قرار دے کر علاج کا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔
شادی کے سال، ڈیڑھ سال بعد اگر اولاد کی خوشی دیکھنی نصیب نہ ہو، تو ماہر معالج سے لازماً رجوع کیا جائے کہ دعاؤں، اوراد و وظائف کے ساتھ ماہر ڈاکٹرز سے معاینہ کروانے میں ہرگز کوئی قباحت نہیں۔ ہمارا مذہب تو اِس اَمر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نیز، یہ کہنا کہ آیوڈین ملے نمک یا پولیو سے بچاؤ کے قطروں سے بانجھ پن کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، انتہائی احمقانہ بات ہے۔ یاد رہے، جن ممالک نے پولیو سے نجات حاصل کی ہے، وہاں افزائشِ نسل کے حوالے سے کوئی ایسی رپورٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔‘‘