• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح کے اخبارات میں نواز مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ایک انتہائی اہم بیان شائع ہوا ہے۔ یہ بیان شہباز شریف نے جمعرات کو جھنگ میں نواز لیگ کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران دیا ہے۔ اس بیان کے خاص نکات مندرجہ ذیل ہیں۔ (اے) پنجاب کی بجلی بند کر کے ہمیں پنجابی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ (بی) لاہور میں18گھنٹے بجلی بند رہتی ہے جبکہ کراچی میں 24گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری ہے (سی) زرداری پاکستان کی آبادی کے60فیصد پنجابیوں کو سزا دے رہے ہیں ،(ڈی) پی پی نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے پنجاب کی صنعت اور تجارت کو تباہ کردیا ہے۔ (ای) ہمیں پنجابی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے ، (ایف) انہوں نے صدر زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آبادی کے60فیصد پنجابی ہیں اور انہیں پنجابی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیا پنجابی ہونا جرم ہے؟
پنجاب اور نواز لیگ کے ایک اہم رہنما کی طرف سے استعمال کی گئی زبان پڑھ کے سخت افسوس ہوا ۔ایسی زبان تو شیخ مجیب الرحمن نے بھی شاید ہی استعمال کی ہو۔ ہم یہاں سندھ میں ایمانداری سے اس رائے قائم کئے ہوئے تھے کہ اس بار کم سے کم دو وجوہات کی بنا پر پنجاب سے نواز لیگ انتخابات Sweepکر رہی ہے مگر ایسی زبان پڑھنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ پنجاب میں نواز لیگ کے لئے کوئی بڑی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں جو شہباز شریف کو ایسی زبان استعمال کرنا پڑ رہی ہے اور ایسے بے تکے الزامات لگانے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ کیا پاکستان کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ ” شاونزم کا سہارا لیا جائے،کیا شاونزم سے کہیں کوئی دیرپا حل نکلا ہے؟“
ایسی باتیں کرتے وقت پتہ نہیں کیوں شہباز شریف کو یہ احساس نہیں ہوا نہ کہ ایسی باتیں کر کے وہ پارٹی اور اپنے قائد میاں نواز شریف جو کہ ان کے بڑے بھائی بھی ہیں کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔ نواز شریف بے شک ایک قومی رہنما ہیں، ماضی میں ان کے کردار کے بارے میں جو بھی آراء رہی ہیں کم سے کم اس وقت سندھ کے چند قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے اور اپنے جمہوری کردار کی وجہ سے ان کیلئے سندھ کے عوام کے وسیع حلقوں میں کسی حد تک نرم گوشہ پیدا ہو چکا ہے۔ سندھ میں نواز شریف سے کسی حد تک توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں مگر یہ بیان پڑھنے کے بعد سندھ کے عوام اور خاص طور پر اس کے اہم شہر کراچی کے لوگوں کی دلوں پر جو گزری ہو گی وہ تو صرف یہ لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔خدا کے بندے ! آپ کو کس نے بتایا کہ کراچی میں 24گھنٹوں کیلئے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ کی اتنی لاعلمی اور بے خبری؟
کم سے کم کراچی میں اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے ہی پوچھ لیتے؟ کراچی میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔
اسی طرح ان صاحب کو یہ پتہ نہیں ہے کہ باقی سندھ کے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے۔ وہاں بھی کم و بیش 14سے16گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔ وہ کس کے سامنے جا کر فریاد کریں پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ ن لیگ پنجاب میں اس قسم کی جھوٹی منافرت والے ایشوز پر مبنی اپنی الیکشن مہم چلا رہی ہے۔ قبلہ ! یہ آپ پنجاب میں جو نفرت کی فصل بو رہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ کیا ن لیگ جیسی ایک بڑی پارٹی کے ان جیسے ذمہ دار رہنماؤں کو پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اس طرح کی الیکشن مہم چلانی چاہئے؟ آپ زرداری کو اس صورتحال کا مورد الزام قرار دے رہے ہیں اور کوئی دن نہیں جاتا ن لیگ کے اہم رہنما صدر زرداری کی ذات کے خلاف ایسے الزامات نہیں لگاتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں زرداری کا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں یہ کام ان کی پارٹی کا ہے کہ وہ اپنے صدر کا دفاع کریں۔ اگر صدر زرداری کے خلاف ایسے الزامات لگائے جائیں جو حقائق پہ مبنی ہوں اور ان کی غلط پالیسیوں کے خلاف ہوں تو ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا مگر پاکستان میں ہر خرابی کی ذمہ داری صرف ایک فرد پر عائد کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ جہاں تک صدر آصف زرداری کی اور ان کی پارٹی کے بارے میں اس وقت سندھ کے عوام کی آراء کا تعلق ہے تو میں اپنے پچھلے کالم میں یہ بات ریکارڈ پر لے آیا ہوں کہ پی پی کی موجودہ حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے اب سندھ کے عوام اور پی پی کے درمیان محبت کا رشتہ کافی حد تک موجود نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو ڈاکٹرائن کو دفن کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ ”زرداری ڈاکٹرائن“ کو لایا گیا ہے۔ زرداری ڈاکٹرائن سندھ کے عوام میں کسی حد تک مقبول ہے اور اس کے سندھ کے عوام کی سیاسی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس سلسلے میں سندھ کے عوام کے جذبات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
جہاں تک شہباز شریف کے مذکورہ فرمودات کا تعلق ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ شریف برادران ایک بار پھر پنجاب سے پی پی کو بیدخل کرنے کے لئے ”پنجاب کارڈ“ استعمال کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ شریف برادران نے ”پنجاب کارڈ“ ایک بار پہلے بھی1988ء میں اس وقت استعمال کیا جب قومی اسمبلی کے انتخابات میں پنجاب میں پی پی اکثر نشستیں جیت رہی تھی اس وقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات قومی اسمبلی کے انتخابات کے دو تین دونوں کے بعد ہوتے تھے لہٰذا ن لیگ کی طرف سے سارے پنجاب میں ایک ہی نعرہ لگایا کہ ”جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ “ یہ نعرہ اس حد تک ضرور کامیاب ثابت ہوا کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ن لیگ شاید اکیلی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔
تازہ ترین