• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں، جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
آج صبح ہی سے نہ جانے کیوں امجد اسلام امجد کا یہ شعر بار بار میری زبان پر آ رہا تھا حالانکہ ایسا کوئی واقعہ بھی نہیں ہوا۔ سوچا قارئین کی نذر کر دوں، شاید یہ حسب حال ہے اس لئے اچھا بھی لگ رہا ہے اور بار بار زبان پر آ رہا ہے۔ شہر جوں جوں انتخابات کی مقررہ تاریخ 11مئی کی طرف بڑھ رہا ہے اسی طرح دھماکوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے روزانہ کی تعداد ایک یا دو مقرر تھی اب ایک ہی رات میں چار ہوگئے اور تقریباً کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ کا احاطہ کر لیا۔ قصبہ کالونی، صدر اور لیاری کے علاقوں تک دھماکے کرنے والوں کی رسائی ہوگئی ہے اور اب نہ جانے ان کا رخ کس طرف ہو۔ یہ ایک خطرناک سازش ہے جس کے مضمرات میں کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش ہے اس سے قبل سازشی حضرات نے متعدد بار فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کرانے کی انتھک کوششیں کیں مگر سلام ہو کراچی کے عقلمند اور تعلیم یافتہ عوام کو جنہوں نے ان تمام سازشوں کو چشم زدن میں ختم کر دیا اور بھائی چارے کی فضا کو شہر میں بحال رکھا اور اس طرح معمولات زندگی اپنے فطری انداز میں چلتے رہے اور چل رہے ہیں اور انشاء اللہ چلتے رہیں گے۔ اب انتخابات سے قبل دھماکوں کے ذریعے جانی نقصان اور پھر یوم سوگ کی صورت میں معاشی نقصان قوم کو پیچھے کی طرف دھکیل دے گا۔ جانی نقصان کا تو ازالہ ممکن نہیں مگر آج کے زمانے میں معاشی نقصان کو پورا کرنا بھی اتنا آسان نہیں خاص طور پر روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور وہ ہر وقت کسی معجزے کا منتظر رہتا ہے۔ سیاست دانوں کے ٹی وی پر اشتہارات دیکھ کر ایک ناپختہ ذہن کا عام آدمی سچ مچ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ 11مئی کو ملک آزاد ہو جائے گا، غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی اور چاروں طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ سیاسی پارٹیوں کے الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات کی تعداد دیکھ کر قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان پارٹیوں نے کتنا پیسہ کمایا ہوا ہے، کاش اس کا آدھا بجٹ بھی یہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیتے تو آج سرکاری اسپتالوں میں ادویات میسر نہ ہونے کے باعث سیکڑوں بچے خسرہ کی بیماری سے نہ مرتے اور انہیں ویکسین مل جاتی۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں ایسی کویتا سنانے والا کوئی نہیں ہوتا وہاں صرف ”سب ٹھیک ہے“ کی رپورٹ دینے والے بے شمار مصاحب ہوتے ہیں اکبر تو یونہی بدنام تھا اس کے تو صرف نورتن تھے جس میں کافی کام کے بھی تھے آج کی حکومتوں کے رتنوں کی تعداد کا ہی علم نہیں اور آج کے اکبر بھی ظل الٰہی سے کم نہیں۔ میں تو جیسے جیسے الیکٹرونک میڈیا پر اشتہارات دیکھتا ہوں ویسے ویسے ہی میری حیرانگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب تو ان اشتہارات میں صرف ”داغ مٹانے“ اور ”دانت چمکانے“ کے جملوں کی کمی رہ گئی ہے باقی تو تمام میٹریل اشتہار میں موجود ہوتا ہے اب ان کو صرف یہ کہنا باقی ہے کہ داغ نہیں تو سیکھنا نہیں اور چمکدار دانت کامیابی کی ضمانت ہیں۔ خیر جیسے جیسے الیکشن نزدیک آئیں گے کوئی میرے جیسا مشورہ دینے والا ان جملوں کے استعمال کا مشورہ بھی دے دے گا ابھی تو صرف شیر کے شکار، جنگلی شیر کے شکار، سرکس کے شیر کا آسان شکار اور بلے بازی سے متعلق جملہ بازی ہو رہی ہے سنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس جملے بازی اور ذاتی حملوں کا نوٹس لے لیا ہے مگر جب سے الیکشن کمیشن کا کمپیوٹر چوری ہوا ہے اس وقت سے الیکشن کمیشن بھی کچھ محتاط اور ڈھیلا ہوگیا ہے۔ نہ جانے اس کمپیوٹر میں ایسا کونسا ڈیٹا تھا جس نے الیکشن کمیشن کا منہ بند کروا دیا ہے۔ آنکھیں اور کان تو پہلے ہی سے بند تھے بقول رئیس امروہوی
گدائے بوسہ کو پروائے وصل دوست نہ تھی
غریب شہر کا انداز، خسروانہ تھا
ہم ہر آنے والے دن کے ساتھ 11مئی کے الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور الیکشن مقررہ وقت پر منعقد ہونے کا قوی امکان ہے۔ پنجاب کی حد تک تو عمران خان اور میاں نواز شریف میں جلسوں اور کارنر میٹنگز کا سخت مقابلہ ہو رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں پیش پیش ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کی مکمل خاموشی انتہائی معنی خیز ہے وہ صرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں لمبے لمبے اشتہارات پر ہی انحصار کئے بیٹھے ہیں۔ وہ شاید جلسے اس لئے نہیں کر رہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کا ووٹ بینک کاٹ کر پیپلز پارٹی کا کام آٹومیٹک کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی خوش ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں آپس میں لڑیں گی اور تیسری پارٹی بیچ میں سے نکل جائیگی۔ یہ بات فی الحال تو مذاق لگتی ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اتنی ہلکی بات بھی نہیں کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے۔ دلّی کے شاعر اشوک ساہنی ساحل کا شعر ہے
ناخدا کا کس لئے احسان اٹھاؤں دوستو
میری کشتی کو کنارے خود لگائے گا خدا
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپنی الیکشن کی مہم ساری اللہ پہ چھوڑ دی ہے کم خرچ بالا نشین۔ پاکستان کی بسوں میں اکثر یہ شعر لکھا ہوتا ہے
نہ انجن کی خوبی، نہ کمال ڈرائیور
خدا کے سہارے چلی جا رہی ہے
تازہ ترین