• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، میر شکیل الرحمٰن کی اپیل، جسٹس عطا بندیال کی سماعت سے معذرت

سپریم کورٹ، میر شکیل الرحمٰن کی اپیل، جسٹس عطا بندیال کی سماعت سے معذرت


اسلام آباد (رپورٹ / رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ میںجنگ،جیو میڈیا گروپ کے سربراہ،میر شکیل الرحمان کے خلاف 34سال پرانے جائیداد کے ایک معاملہ کے حوالے سے قائم کئے گئے نیب کے مقدمہ میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج ہونے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ذاتی وجوہ کی بناء پر اس کیس کی سماعت سے معذرت کرلی ہے اورکیس کو کسی اور تین رکنی بنچ کے سامنے لگانے کے انتظامی حکم کے لئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز میر شکیل الرحمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے خواجہ حارث احمد ایڈوکیٹ اور امجد پرویز ایڈوکیٹ پیش ہوئے جبکہ اس موقع پر جنگ جیو گروپ سے وابستہ متعدد سینیئرصحافی اور عدالتی رپورٹر ز بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ حارث احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ ذاتی وجوہات کے باعث اس مقد مہ کی سماعت نہیں کر سکتا ہوں ،انہوںنے کہاکہ میں اس مقدمہ کے ایک فریق کو پچھلے چالیس سالوں سے جانتا ہوں ، فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل پچھلے 201روز سے مسلسل قید میں ہیں۔

اس لئے عدالت سے استدعاہے کہ ان کی درخواست کو تین رکنی بنچ ہی کے سامنے جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے،بعد ازاں فاضل عدالت نے کیس کو کسی اور تین رکنی بنچ کے سامنے لگانے کے انتظامی حکم کے لئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا اور متعلقہ آفس کو اس درخواست کواگلے عدالتی ہفتے کے دوران سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

اپیل گزار کی جانب سے خواجہ حارث احمد ایڈوکیٹ کے ذریعے دائر کی گئی اپیل میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس مقدمہ میں اپیل گزار کے علاوہ تین اور افراد کو بھی نیب کے ریفرنس میں نامزد کیا گیا ہے جن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف ، ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور ڈائریکٹر لینڈ ڈیویلپمنٹ شامل ہیں ، نواز شریف تو ملک سے باہر ہیں لیکن دیگر دونوں ملزمان کو وارنٹ تک جاری نہیں کئے گئے جبکہ اپیل گزار کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ،کیا یہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے۔

اپیل گزار تو کوئی عوامی نمائندہ بھی نہیں ہے ،اپیل گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ان کی اپیل کو خارج کرکے مسول علیہ نیب کے درپردہ خفیہ مقاصد ،مروجہ قوانین اور حقائق کو نظر انداز نہیں کیا ہے؟ 

کیا ان کی گرفتاری اور مسلسل قید میں رکھنا ایک ملزم کا جرم ثابت ہونے سے قبل اسے معصوم تصور کرنے اورجرم ثابت ہونے سے قبل ہی اس کا ٹرائل کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ اور کیاقانون کے مطابق برابری کے اصول سے متصادم نہیں ہے ؟اگر کوئی بے ضابطگی بنتی بھی ہو تو بھی اسے ایل ڈی اے کے قانون کے مطابق نمٹا جاسکتا ہے۔

ایل ڈی اے کے اپنے قوانین موجود ہیں جبکہ نیب آرڈیننس کی دفعہ 5آر کے تحت اپیل گزار کو ایک ماہ قبل نوٹس جاری کرنے کا تقاضہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے ،ان حالات میںکیا ا پیل گزار کی گرفتاری اور مسلسل قید میں رکھنا روز اول سے ہی غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل ہائے 9,10a,14,15 25سے متصادم نہیں ہے۔

رخواست گزار نے سوال اٹھایا ہے کہ ایک زیر سماعت مقدمہ میں ان کی گرفتاری اور انہیں مسلسل قید میں رکھنا جبکہ جرم ثابت ہونے تک ملزم کو معصوم تصور کیا جاتا ہے، کے نظریہ کی نفی اور بغیر ٹرائل کے ہی ملزم کو سزا دینے کے مترادف ہے ،کیا یہ ایک ملزم کے ساتھ آئین کے آ رٹیکل 4کے تحت مساوی سلوک کرنے کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

آیا کہ 4کنال 12مرلے اراضی کی موجودہ مارکیٹ ویلیو14کروڑ 35لاکھ 30ہزار روپے کی ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی بنا پر قانونی ضابطے پورے کئے بغیر درخواست گزار کے خلاف نیب آ رڈیننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت ریفرنس قائم کیا جاسکتا ہے ؟ کیادرخواست گزار کی گرفتاری اور قید میں رکھنے کا عمل روز اول سے ہی غیر قانونی اور آئین کی متعدد شقوں سے متصادم نہیں ہے؟

درخواست گزار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایل ڈی اے کو عدم ادائیگی کی پاداش میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرنا اور نیب کی جانب سے انہیں کسی مجاز عدالت سے سزا ملے بغیر ہی مسلسل قید میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت ’ ڈیو پراسس‘ کے اصول کی پامالی نہیں ہے ؟ یہ بھی یاد رہے کہ نیب حکام کی جانب سے میر شکیل الرحمان کو گرفتارکرکے قید میں ڈالے ہوئے آج 202دن ہوگئے ہیں۔

تازہ ترین