• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابتدا علامہ اقبال کے اس شعر سے #
مسلسل اضطرابِ غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو میری داستاں دراز نہیں
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو دہشت گردی معمول بن گئی ہے۔ کراچی میں پہلے بھتہ کے نام پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی رہی ، وہ اب بھی اسی طرح جاری ہے، مسلسل تین روز سے شہر قائد خوفناک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہفتہ کو ایک امام بارگاہ کے قریب بم دھماکہ کیا گیا، ایک شیعہ عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا جس سے یوں لگا کہ یہ وطن دشمن، جمہور عناصر ملک میں افراتفری پھیلا کر مذہبی نفرتوں کی آگ بھی بھڑکانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز چار دھماکوں سے شہر قائد لرز اٹھا۔ ان اندوہناک واقعات کے بعد شہر میں ہُو کا عالم تھا اور شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کراچی والوں نے اپنے گھروں کے کواڑ بند کر لئے۔ یہ صورت حال انتہائی الارمنگ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ”اَن دیکھے ہاتھ“ عام انتخابات کو ہی سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے بلکہ ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچانے کی سازش کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک جس کرب میں مبتلا ہے ، گھپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ایسا اندھیرا کہ ایک ہاتھ کو دوسرا ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، حکومت نام کی کوئی چیز تو ایک مدت سے اس ملک میں موجود نہیں لیکن اب جو ”نگرانوں کے نام“ پر بڑے عظیم لوگ تشریف فرما ہیں ایسے لگتا ہے کہ یہ سب اقتدار کا جھولا جھولنے آئے ہیں باقی کسی اچھے برے کام سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ اگر کوئی جھولی پھیلائے تو جواب ملتا ہے کہ ”بابا معاف کرو ہم تو صرف پندرہ بیس دن کے مہمان ہیں، آنے والے مرادیں پوری کریں گے“۔ ایک خوفناک اور خبرناک واردات یہ ہوئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سے قوم نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں اور یہ یقین تھا کہ ان کی قیادت میں ایسے صاف شفاف انتخابات ہوں گے کہ ساری دنیا دیکھے گی اور ہارنے والے بھی خراج تحسین پیش کریں گے لیکن وہ تمام امیدیں ایک ایک کر کے بیچ چوراہے میں دم توڑ رہی ہیں (یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں ایسا سوچی سمجھی سازش کے تحت تو نہیں کیا جا رہا) جناب نگران وزیر اعظم ”اچھی شہرت“ اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کے انتخاب کا بھی خیر مقدم کیا گیا لیکن وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کے کندھے حکمرانی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کی نگران کابینہ تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مترادف ہے۔ صوبوں میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ بلوچستان میں تو نگران وزیر اعلیٰ کے بعد کابینہ بنانے کا تکلف ہی نہیں کیا گیا ۔ یہ اس وقت سب سے حساس صوبہ ہے جہاں سارے اختیارات انتظامیہ یا گورنر کو دے دیئے گئے ہیں۔ صدر مملکت ایوان صدر میں موجود تو ہیں اور بڑے تگڑے بھی ہیں لیکن وہ کروٹ بھی لیتے ہیں تو الزام لگ جاتا ہے کہ ”ایوان صدر میں سیاست ہو رہی ہے“ تاہم ان کی جانب سے کبھی کبھی رسمی طور پر یہ بیان ضرور آ جاتا ہے کہ ”الیکشن بروقت ہوں گے ایک دن کی تاخیر نہیں ہو گی“ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہو گا زمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ ہر طرف افراتفری ہے، بم دھماکوں میں معصوم بچے اور بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں۔ جانے والی حکومتیں ان کا سدباب تو نہ کر سکیں لیکن اتنا ضرور تھا کہ ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مرنے والوں اور زخمیوں کو مالی امداد تو دی جاتی تھی۔
نگرانوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ ”سرپرستی“ بھی نہیں ہو رہی کہ سب ان کی طرح بے یار و مددگار ہیں۔ ان حالات میں وقت کا تقاضا ہے کہ میاں نواز شریف آگے بڑھ کر فوری طور پر ایک کل جماعتی سربراہی کانفرنس طلب کریں جس میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ان واقعات پر غور کر کے ایک فول پروف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس سے خوف و ہراس کی اس فضا سے نہ صرف نجات مل سکے بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہو سکے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ملک کی بانی جماعت کے دعویدار کی حیثیت سے میاں صاحب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ وطن کی سالمیت و استحکام اور تحفظ کے لئے اقدامات کریں۔ اس ضمن میں میاں نواز شریف تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت دیں، تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھلے دل سے سیاستدانوں کو یہ فرض ادا کرنا ہو گا۔ میاں نواز شریف کے بارے میں لاکھوں الزام سہی لیکن سب کو اعتراف ہے کہ وطن سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپس میں اگر کوئی شکوے شکایت ہیں تو وہ اپنی جگہ درست سہی لیکن وطن تو سب سے بڑا ہے اور ایسا وطن جسے آگ و خون کی ایک پرہول وادی سے گزر کر حاصل کیا گیا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف ہی نہیں سارے لیڈروں کو وطن آواز دے رہا ہے۔ ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت اور سٹیک ہولڈروں کو بھی توجہ دینی چاہئے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری چمن کے قائدین پر ہوتی ہے۔ الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف ”بدزبانی“ نے بھی انتخابی فضا کو بڑا مکدر کیا ہے اور اس میں اہل صحافت بھی شریک حال ہیں تاہم ان سب باتوں کو فراموش کر کے سنگین حالات کے تدارک کے لئے سب کو ایک میز کے گرد بیٹھنا ہو گا اور اس کی بڑی ذمہ داری جناب میاں نواز شریف پر ہے کہ وہ فوری طور پر تمام لیڈروں کی کانفرنس طلب کریں، مشترکہ وفود ترتیب دیئے جائیں جو فوراً کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا دورہ کریں۔ متاثرہ علاقوں میں جائیں ، نگران حکمرانوں، سول و فوجی حکام سے تبادلہ خیال کریں۔ اب تو بہت ہو چکی ہمارے ہزاروں جوان اور شہری اس دہشت گردی کی آگ کا شکار ہوئے ہیں اب کسی نہ کسی طرح یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے اور سب سے اہم یہ کہ عام انتخابات کے لئے پرامن و سازگار ماحول قائم ہونا چاہئے۔ کل جماعتی کانفرنس میں جو فیصلے کئے جائیں ان پر عملدرآمد کا حلف لیا جائے۔ پہلے ہی بڑی دیر ہو چکی ہے اب مزید تاخیر نہ کی جائے۔ میاں نواز شریف آج ہی ابھی اس کانفرنس بلانے کا اعلان کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ تاریخ کے کیمرے کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی ہے!!
تازہ ترین