• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نابالغ بچوں کو دی ہوئی اشیاء کا شرعی حکم (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

اکثر معاملات میں مدار عرف پر ہے اور عرف نصِّ شرع کی طرح حاکم ہوتاہے ۔دوست رشتے دار بچوں کو جو نقد رقم عیدی کے طورپر یاکسی خوشی کے موقع پر یا ملاقات کے وقت دیتے ہیں ، ہمارے عرف میںوہ بچوں کے ماں باپ کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرتے ہیں ،اسی لئے یہ چیزیں بچے کو والدین کی عدم موجودگی میں نہیں دی جاتیں، والدین کو دکھاکر یا باور کرا کے دی جاتی ہیں یعنی اگریہ ہبہ بھی ہو تواصل موہوب لہٗ بچے کے والدین ہوتے ہیں، بچے صرف واسطہ اور سبب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین مناسب مواقع پر ان ہدایا کا اپنی اپنی توفیق کے مطابق بدل دیتے ہیں ۔شادی کی تقریبات میں اِسے ’’نیوتا‘‘ کہتے ہیں۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں: ’’شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں ،اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں رائج ہیں، ہر شہر میں ہرقوم میں جداجدا رسوم ہیں ،ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یاقرض کا۔عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے ،وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں، اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہرتقریب میں جب روپے دیے جاتے ہیں ،تو ہرایک شخص کانام اوررقم تحریر کرلیتے ہیں ،جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تویہ شخص جس کے یہاں دیا جا چکاہے،فہرست نکالتاہے اوراُتنے روپے ضروردیتاہے ، جو اُس نے دیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پاکر کہتے بھی ہیں کہ نِیوتے کا روپیہ نہیں دیا،اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے توایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے،(بہارِ شریعت ،ہبہ کا بیان ،جلدسوم، ص: 78-79)‘‘۔

صدرالشریعہ ؒ کا موقف یہی معلوم ہوتاہے کہ سماجی تقریبات (ختنہ، عقیقہ، شادی وغیرہ) میں بالعموم لین دین غیر عَلانیہ قرض ہی ہوتاہے اور دلیل یہ ہے کہ اُس کا ریکارڈ رکھاجاتاہے ، خواہ یہ تحریر کی صورت میں یا ذہن میں محفوظ ہو۔ جس کی طرف سے مُتبادل موقع پر بدل نہ آئے ،تو اُسے اگر ظاہر نہ بھی کیاجائے، تب بھی کم ازکم دل میں یا اپنے حلقے میںملامت ضرورکرتے ہیں ۔ تو جو چیزیں بچے کویا بچے کے نام سے دی جارہی ہیں ،وہ والدین ہی پر قرض ہوتاہے ۔بعض لوگ بااثر لوگوں کو براہِ راست یااُن کے بچوں کو ہَدایا دیتے ہیں ،تواُس کا صلہ بھی بچوں کے والدین سے کسی نہ کسی حمایت کی صورت میں معہودفی الذہن ہوتاہے ۔لہٰذا یہ تمام چیزیں بھی بچے کے والدین کی ملک ہوتی ہیں او روہ اِن کا بدل بھی کسی نہ کسی صورت میں دیتے ہیں اور اُن میں تصرُّف بھی کرتے ہیں۔

بعض اشیاء قابلِ تلف ہوتی ہیں اور وقت گزرنے کے بعد بعض ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں ۔اب اگر ایسی تمام اشیاء کو بچے کی ملک یا بچے کے نام ہبہ قراردیاجائے اور اُن پر تصرُّف کاکسی کو اختیار نہ رہے ،تواُن کی حفاظت ایک مسئلہ بن جائے گی ،جن کے ہاں پانچ دس بچے ہیں،اُنہیں تو باقاعدہ ایک کمرہ ایسے گودام کے لئے بچوں کے بالغ ہونے تک مختص کرنا پڑے گا ،کیونکہ آج کل کھلونے اوربعض دیگر اشیاء کافی جگہ گھیرتی ہیں۔ پس لوگوں کو عُسرا ورمَشقّت میں ڈالنا اورحرج میں مبتلا کرنا حکمتِ شریعت کے منافی ہے اور اس پر معاشرے میں عام طور پر عمل توویسے بھی نہیں ہوتا ، تو لوگوں کو حکم شرعی کی حکم عدولی کا مرتکب قراردینا پڑے گا۔دین وشریعت کی روح یُسر اور دفعِ حرج ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :(۱)ترجمہ:’’ اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اورتم پر دشواری نہیں چاہتا ،(سورۃ البقرہ:185)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی،(سورۃالحج:78)‘‘۔

حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آسانی پیدا کرو اور مشکل نہ پیدا کرو اور بشارت دو اور لوگوں کو مُتنفّر نہ کرو،(صحیح بخاری:69)‘‘۔’’ابو مسعود ؓبیان کرتے ہیں : ایک شخص نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ !میں فلاں شخص کی وجہ سے جو (امامت کرتاہے اور) طویل نماز پڑھاتا ہے ، فجر کی نماز سے رہ جاتاہوں ،تو میں نے اس دن کی طرح رسول اللہ ﷺ کو وعظ کے دوران اتنی شدید غضب کی کیفیت میں نہیں دیکھا،آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جولوگوں کو (دین اور عبادت سے) مُتَنفّر کرتے ہیں ،سوتم میں سے جو شخص نماز میں لوگوں کی امامت کرے، تووہ نما ز میں اختصار سے کام لے ،کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ،جنہیں کوئی حاجت دَرپیش ہوتی ہے ،(صحیح بخاری : 702)‘‘۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں (بعض اوقات )نماز (باجماعت) کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور طویل نماز پڑھنا چاہتاہوں کہ اچانک میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتاہوں تو میں اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے اپنی نمازمختصر کردیتاہوں کہ کہیں (بچے کا رونا) اُس کی ماں کے لئے تکلیف کا باعث نہ ہو،(صحیح بخاری : 707)‘‘۔مقامِ غور ہے کہ نماز تورکنِ اسلام ہے اور نماز میں طویل قیام ، رکوع وسجود اللہ عزّوجلّ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کو پسندیدہ ہیں،لیکن دفعِ حرج کے لئے آپ ﷺ خود بھی اختصار فرماتے اور امام کو بھی تنبیہ کے انداز میں یہی ہدایت فرمائی۔

البتہ جو چیزیں بطور خاص بچوں کے نام پر ہوں جیسے : انہیں نمایاں کامیابی پر یا مقابلۂ حسنِ نعت وتقریر وقرا ء ت میں یا حفظِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے پر کوئی خصوصی انعام یا میڈل دیاگیاہو یا شیلڈ دی گئی ہو یا اُن کے نام پر کوئی تکافل پالیسی لی گئی ہو یا بینک میں پیسے جمع کیے گئے ہوں تو وہ اُن کی مِلک قرار پائیں گے اور ایسی چیزوں میں والدین کو تصرُّف نہیں کرنا چاہیے ۔

تازہ ترین