• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزا دونوں نے ایک دوسرے کو دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو ایک دوسرے کا حریف امریکہ نے بنایا اور اب امریکہ ہی کے کرتوتوں کی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع مل رہا ہے۔ 

پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دے کر طالبان کو قربان کیا جس کی وجہ سے اُن کی حکومت امریکہ کی توقع سے بھی جلد ختم ہو گئی لیکن جب افغانستان میں ہندوستان کی سرکردگی میں پاکستان کے خلاف سرگرمیاں شروع ہوئیں تو پاکستان نے بھی طالبان سے متعلق اپنی پالیسی بدل دی جس کی وجہ سے افغان حکومت ناراض ہوئی اور ایک وقت آیا کہ افغان حکومت کے اداروں نے بھی پاکستان کو جواب دینا شروع کیا۔ 

دونوں حکومتوں کی مخاصمت کی وجہ افغانستان میں ہندوستان کی سرگرمیاں تھیں، جسے یہ مقام امریکہ نے دلوایا تھا۔ اسی طرح گوادر کو ناکام بنانے کیلئے بلوچ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں ٹھکانے دینا بھی بنیادی طور پر امریکہ کا ایجنڈا تھا کیونکہ گوادر کی بندرگارہ سے تکلیف افغانوں کو نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو تھی۔ 

پاکستان کا ابتدائی مشورہ یہ تھا کہ تمام طالبان کو طاقت کی لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے مصالحت پر آمادہ طالبان کو نظام کا حصہ بنایا جائے لیکن تب امریکی طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر مصر تھے۔ 

اُس وقت حامد کرزئی نے پروفیسر صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں طالبان سے مصالحت کے لئے مصالحتی کمیشن بنایا تھا لیکن امریکہ نے اُن کو طالبان سے مفاہمت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ 

یوں غور سے دیکھا جائے تو نائن الیون کے بعد پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین فساد کی جڑ امریکہ ہی تھا تاہم پاکستان امریکہ کو ”نا“ کرنے کے بجائے یا اسے سزا دینے کے بجائے، افغانستان کو جواب دیتا رہا۔ 

دوسری طرف افغان حکومت امریکہ کو تو منع نہیں کر سکتی تھی لیکن سارا ملبہ پاکستان پر گراتی رہی۔ یوں قریب واقع ہونے اور ایک ہی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔

تقریباً بیس سال تک افغانستان کو جنگوں سے تباہ کرنے اور پاکستان اور افغانستان کو لڑوانے کے بعد اب امریکہ نے افغان حکومت کو بائی پاس کرکے طالبان سے مذاکرات شروع کئے اور پھر اُن سے ایسی شرائط پر معاہدہ کرلیا جس سے ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت خوش نہیں تھی لیکن چونکہ امریکہ کو منع نہیں کر سکتی تھی، اِس لئے دوحہ معاہدے کو بادل نخواستہ قبول کیا۔ 

امریکہ اتنا بھی نہ کر سکا کہ طالبان سے جنگ بندی کروا لیتا۔ دوحہ معاہدے سے افغان حکومت اور کابل کے سیاسی نظام میں شامل لوگوں کی پوزیشن نہایت کمزور ہو گئی جبکہ طالبان کا مورال آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ 

امریکہ سے معاہدے کے بعد طالبان نے افغان حکومت کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بجائے مزید تیز کردی اور امریکہ کی فضائی قوت کا خوف ختم ہو جانے کے بعد اُن کے اعتماد میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ رات کے وقت اہم شاہراہوں پر تلاشی لینے لگے۔ چنانچہ یہ خوف بڑھنے لگا کہ کہیں طالبان ایک بار پھر بزور بندوق کابل پر قابض نہ ہو جائیں۔ 

حامد کرزئی کی زیر قیادت افغان زعما کے جرگہ کے نتیجے میں ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ڈیل کے پیچھے دیگر عوامل کے ساتھ یہ خدشہ بھی کارفرما رہا۔ اب بھی افغان حکومت اور وہاں کے سیاسی نظام میں موجود عبداللہ عبداللہ جیسے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان سے مفاہمت نہ ہوئی تو اُن کا سیاسی نظام تباہ ہو سکتا ہےاور افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے۔ 

وہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل کی صورت میں یہ حالات دیکھ چکے ہیں اور اُنہیں یقین ہے کہ طالبان پر اگر کسی ملک کا سب سے زیادہ اثر ہے تو وہ پاکستان ہے، اِس لئے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں اور عبداللہ عبداللہ کا دورۂ پاکستان اِسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔

دوسری طرف پاکستان بھی اِس وقت خوف کا شکار ہو گیا ہے کہ کہیں افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار نہ ہو جائے۔ پاکستان کو یہ بھی احساس ہے کہ طالبان پر روز بروز اِس کا اثر کم اور دیگر ممالک کا بڑھتا جارہا ہے۔ 

طالبان کے ساتھ تو پاکستان کے دروازے کھلے ہیں لیکن قضیے کا دوسرا فریق افغان حکومت اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگ ہیں، جن سے ماضی میں کشیدگی رہی ہے۔ پاکستان اِس صورت میں مفاہمت کیلئے بہتر کردار ادا کر سکتا ہے کہ دوسرے فریق کے ساتھ بھی اِس کا اعتماد بحال ہو۔ 

اس لئے وہ صرف افغان حکومت کو ہی نہیں بلکہ عبداللہ عبداللہ جیسے لوگوں کو بھی قریب لانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ کو بھرپور پروٹوکول دیا گیا اور اُن کی توقع سے بڑھ کر آؤ بھگت ہوئی۔

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ اصل دشمنی تاجک، ازبک اور ہزارہ قیادت کی تھی تو پھر افغان حکومت کیونکر طالبان کے ساتھ مفاہمت میں سنجیدہ ہوگی؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور اُن کی کابینہ کے بعض لوگوں کی بہ نسبت عبداللہ عبداللہ زیادہ سنجیدہ ہیں۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ اگر طالبان سے ڈیل ہوتی ہے تو عبوری حکومت بنانا ہوگی جس کے نتیجے میں اشرف غنی کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ 

اِسی طرح اگر طالبان سیاسی نظام کا حصہ بنتے ہیں تو وہ ڈاکٹر اشرف غنی جیسے پختون رہنماوں کی جگہ لیں گے۔ تاجک، ازبک اور ہزارہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام میں بھی اُن کو حصہ بقدر جثہ ملا ہوا ہے اور طالبان کے نظام کا حصہ بننے کے بعد بھی اُن کو حصہ بقدر جثہ ملے گا جبکہ جنگ سے بھی نجات مل جائے گی۔ 

یہ نکتہ حامد کرزئی صاحب بھی سمجھ رہے تھے، اِس لئے اُنہوں نے ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ایسی ڈیل کرا دی کہ ہائی کونسل فار ری کنسی لیشن (جس کے تمام سیاسی رہنما ممبر ہیں) کی چابی اشرف غنی کے بجائے عبداللہ عبداللہ کو دلوا دی۔ اسی وجہ سے پاکستان نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو قریب لانے کی کوشش کی اور انہیں پاکستان کے دورہ کی دعوت دی۔ 

الحمدللہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بڑی حد تک مطمئن ہوگئے ہیں لیکن یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کی ڈیل اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ کو طالبان کے ساتھ اپنی ڈیل میں جتنی دلچسپی تھی، اُتنی اب بین الافغان مفاہمت میں نہیں۔ 

وہ افغان حکومت پر بھی اتنا دباؤ نہیں ڈال رہا جتنا درکار ہے۔ مجھے تو بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی افواج نکال کر افغانستان کو خانہ جنگی کے سپرد کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں سی پیک کامیاب ہو اور چین افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک جائے۔ یہ بھی خطرہ موجود ہے کہ امریکہ بین الافغان مفاہمت سے قبل نکل جائے۔ 

یوں افغانستان اور پاکستان دونوں کی ضرورت ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر اور چین، روس، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں استحکام لانے کی کوشش کریں۔

تازہ ترین