• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیر پر تیر چلا

ایک کمین گاہ سے تیر کی نوک پر یہ چٹ کہ کس کی جرأت استعفیٰ مانگے، کمین گاہ 2سے صدائے پُرشور کہ چپ رہوں گا نہ کوئی چپ کرانے کی کوشش کرے، الغرض تیر پر تیر چلا بچ کے نہ جائے کوئی، جیسا سماں ہے۔ ہاتف غیبی آواز دے کہاں ہے۔ عوام بیچارے ان تیروں کا نشانہ ہی نہیں وہ پہلے ہی مہنگائی، بدامنی، بیروزگاری کے ہاتھوں چارپائی تلے سکھ کے دو سانس لینے کیلئے سانس روک کے لیٹے ہوئے ہیں، صاحبِ چار پائی کے پاس ڈانگ ہے، وہ انہی بےبس لوگوں پر پھیرتا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ جو مختلف کمین گاہوں سے چل رہا ہے ہیر ہے یا پھیر دونوں کو ملا کر پڑھیں، سیاست کو وقت نے منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا رکھا ہے اور گلی کوچوں میں پھرا رہا ہے شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے ذرا سی عبرت۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ عوام کے سر پر چلتی یہ سیاست عوام کے خیرخواہوں کی جانب سے اپنی خیر مانگنے کیلئے چل رہی ہے، حقائق ذرا تلخ ہوتے ہیں مگر ان کا حلوہ بہت میٹھا بنتا ہے، شیرِ نون برطانیہ کے بالاخانوں میں دھاڑ رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ کوئی ہے جو اسے چپ کرا سکے، شیرنی بیٹی کی پکار کہ یہ حکومت ایک جھٹکے کی مار ہے، ویسے ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ جھٹکے سے پہلے میر شکیل الرحمٰن کو رہا کر دے، راوی اُن کے بارے میں چین لکھے گا، سرخیلِ صحافت کو پابندِ سلاسل رکھنا ماتھے پر داغِ سجدہ نہیں کہ مٹا کر ثواب نہ ملے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں سے بہتر نہیں، انہوں نے تجزیے میں کچھ نرمی سے کام نہیں لیا؟ چیف جسٹس نے فرمایا ہے سیاسی مسائل پر ہاتھ ڈال بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، ہم تو عرض کرینگے کہ ڈال ہی دیں کہ اب عدل کی جتنی ضرورت ہے شاید پھر کبھی اتنی نہ ہو اور عدل اگر سیاست میں عدل و اعتدال پیدا کر دے تو یہ بےٹکٹ تماشا ختم ہو، کرپشن ختم کرنے والوں سے عدل ضروری ہے، چاہے وہ اِدھر کے ہوں یا اُدھر کے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

بھکاری اور بھکاری

کسی ملک میں بھکاریوں کی کثرت دکھائی دے تو لامحالہ وہاں کے حکمران بھکاری ہونگے، یہ ایک پیمانہ ہے جو کبھی غلط ریڈنگ نہیں دیتا، بھیک اگرچہ ایک بار تو ٹف ٹائم دیتی ہے مگر ایک بار ہتھیلی پر کرنسی نوٹ آ جائے تو اس کا مزا ہی کچھ اور ہے، یہ ایک پہلا مزا ہزار مزوں کو دیتا جنم، آج تو وہ دور ہے کہ لوگ کہتے ہیں تھوڑی بھیک دیدو صنم، اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ صنم کسی اچھے ریستوران میں پُرتکلف کھانا کھلا دیتا ہے، ایسا صنم اس لئے کرتا ہے کہ محبت کرنے و الے کم نہ ہوں، ہمارے عنوان نے چغلی کھائی ہے کہ بھکاری بے شمار اقسام کے ہوتے ہیں، البتہ کوئی کوئی بھکاری واقعی مجبور بھی ہوتا ہے، وہ مانگتا نہیں اس کے ماتھے پرلکھا ہوتا ہے ایک نمبر بھکاری، اسے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیا کریں، بھیک انڈسٹری ہمارے ہاں خوب چلتی ہے اس لئے تو انڈسٹری بند پڑی ہے مگر ان کے کارخانے چل رہے ہیں جن کے قریب جانے سے پر جلتے ہیں، اللہ تعالیٰ کبھی کسی کو چھپر پھاڑ کے نہیں دیتا کیونکہ وہ گداگری کا مخالف ہے، جب ہمارے حکمران نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے دروازے پر نہیں جائوں گا، تو امید بندھ چلی تھی کہ اب یہاں سے گداگری کا خاتمہ ہو جائے گا مگر بھکاریوں کے لشکروں میں اضافے نے ثابت کردیا کہ ماسٹر مائنڈ کون ہے، بھیک بھی اگر صحیح استعمال کی جائے تو بھکاری صاحب کاروبار و روزگار ہو سکتا ہےلیکن ہم بھیک اس امید پر اڑا دیتے ہیں کہ کل کا سورج نئی بھیک لائے گا۔ بہر کیف ہمارے ہاں بھیک مانگنے کا عمل اوپر سے شروع ہوتا ہے تو پھر ہم نیچے والوں کو بھیک مانگنے کا الزام کیوں دیں؟

٭٭ ٭ ٭ ٭

پدرم سلطان بود

جن کے پاس بہت کچھ ہے وہ تو تکبر کے میکدے میں بدمست ہیں اور جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھی یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ میرا باپ بادشاہ تھا گویا ہم میں کچھ تو تکبر خریدتے ہیں اور کچھ مفت میں ان کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، گویا تکبر ایک ذہنی بیماری یا مائند سیٹ ہے جسے ہم نے نااہل حکومتوں کی طرح مفت ووٹ دیکر چمٹا رکھا ہے ہم نے مغرب میں ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ دولت کے دیوانے ہوں مگر ان کی فلموں میں ضرور دیکھا جو وہ تیسری دنیا کو فروخت کرتے اور خوب کماتے اور بیوقوف بناتے ہیں، ایک نوجوان سے بار بار پوچھا، آپ کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے بار بار ایک ہی جواب دیا ہمارے ماموں ڈپٹی کمشنر ہیں۔

طبقۂ امراء کو جو حفاظتی گارڈ فراہم کرنے والی کمپنیاں ہیں، کیا وہ معاشرے میں اور گلی کوچوں میں فرد واحد کی دہشت نہیں پھیلا تیں جب ریاست کی ذمہ داری تحفظ فراہم کرنا ہے تو پھر یہ چند لوگوں کے دروازوں پر اور ان کے ساتھ بندوق برداروں کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا ریاست تحفظ دینے میں ناکام ہے یا وہ ایلیٹ کو نہ صرف پیدا کرتی بلکہ اسے عام آدمی پر مسلط بھی کرنا چاہتی ہے، اگر کسی کا باپ بادشاہ ہے یا تھا تو اس میں عاجزی ہونی چاہئے نہ کہ نخوت و غرور اور غرور تو ایک دھوکہ ہے۔ کیا دھوکے سے بھی کوئی غالب اور محفوظ ہو سکتا ہے ؟

٭٭ ٭ ٭ ٭

آخر کب تک میر شکیل کو مقید رکھ سکوگے؟

٭فیاض چوہان:نواز شریف نے قومی راز افشا کئےغداری کا مقدمہ چلایا جائے،

آج معلوم ہوا کہ آپ قوم کی محبت میں اپنے رازوں کو بھی قومی راز سمجھ بیٹھے۔

٭مقررین :میر شکیل الرحمٰن کی مسلسل گرفتاری میڈیا کیلئے خطرناک ہے ۔

بالکل درست کہ میرِ صحافت کو قید میں رکھنے سے جنگ جیو کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

تازہ ترین