• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین مرتبہ پاکستان کی وزارتِ عظمی کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے میاں محمد نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کر بھارت کی ایما پر ملکی اداروںکے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ یہ سنگین الزام کسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم پر اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں عائد کیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم نے باالفاظ دیگر سابق وزیراعظم کو بھارتی ایجنٹ اور غدار قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کی اس بات پر پوری قوم کو شدید صدمہ ہوا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انہیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس ملک کے سنجیدہ حلقے میری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔ کسی کو بھی سیاسی مخالفت میں اس حد تک نہیں جانا چاہئے۔ منتخب اور جمہوری وزیر اعظم کا عہدہ تو اور زیادہ سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ قیام پاکستا ن کے چند برسوں کے بعد بدقسمتی سے ایک ایسی حکمران اشرافیہ وجود میں آئی، جو اپنے جوہر میں سیاست اور جمہوریت دشمن تھی۔ اس نے ہی سیاسی اور جمہوری عمل میں سیاست دانوں کی شرکت کو روکنے کے لئےالزامات کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ سیاست دانوں کو غدار، کرپٹ اور کافر قرار دیا جاتا رہا۔ اس بیانیہ کے باوجود پاکستان کے عوام کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد جاری رہی اور لوگوں نے اس بیانیے کو مسترد کردیا۔ پہلے ’’ایبڈو‘‘ اور ’’پروڈا‘‘ جیسے احتساب کے نام نہاد اور کالے قوانین کے ذریعہ سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دے کر احتساب کے شکنجے میں جکڑا گیا اور انہیں سیاست سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی۔اس تمام تر صورت حال کے باوجود جمہوری تحریک مضبوط ہوتی گئی اور لوگ اس تحریک کے بنیادی دھارے میں شامل ہوتے گئے۔ پہلے جو لوگ اس بیانیہ کی تائید میں سیاست دانوں کو کرپٹ کہتے رہے اور خود سیاست میں جگہ بناتے رہے، انہوں نے بھی بعد ازاں اپنی سیاسی بقاء کے لئے جمہوری تحریک کے بنیادی دھارے میں شمولیت اختیار کی۔جن لوگوں نے اس ملک کے حقیقی حکمرانوں کےایماء پر سیاست دانوں کو کافر قرار دے کر نفاذ اسلام کی تحریک چلائی، وہ بھی بعد ازاں اپنی سیاسی بقاء کے لئے جمہوری تحریکوں میں شامل ہوئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف قائم ہونے والے سیاسی اتحادوں میں وہ تمام لوگ شامل ہوئے، جو کبھی ان کے کہنے پر سیاست دانوں کو کرپٹ، غدار اور کافر کہتے تھے۔ سب سے پہلے باچا خان اور نوروز خان جیسے پختون اور بلوچ سیاست دانوں کو غدار کہا گیا۔ پھر یہ سلسلہ سندھی سیاست دانوں بشمول جی ایم سید، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، اور ذوالفقار علی بھٹو، پھر بنگالی سیاست دانوں حسین شہید سہروردی اور مجیب الرحمٰن سے ہوتا ہوا اب پنجاب کے میاں محمد نواز شریف تک پہنچ چکا ہے۔ کرپٹ، غدار اور کافر قرار دینے کا یہ سلسلہ ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد سے تقریبا ختم ہو گیا تھا۔ پرویز مشرف کے خلاف اے آر ڈی کی تحریک تک تو حکمران اسٹیبلشمنٹ کے تمام پرانے اتحادی اور اس کی بولی بولنے والے مخالف صف میں ظاہری یا باطنی طور پر کھڑے ہو گئے۔ پاکستان تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے، جو کسی جمہوری تحریک کا حصہ نہیں رہی ۔ اپنے حالیہ طویل انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی زیادہ تر گفتگو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے کی۔ اگر اس گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو یہ گفتگو تضادات سے بھرپور ہے اور ان کی ایک بات دوسری بات کی خود نفی کرتی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ایک جمہوری اتحاد بن چکا ہے۔ تحریک کے حالات بھی موجود ہیں۔ ایک چنگاری شعلہ بن سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو جمہوری تحریک کے بنیادی دھارے میں بعد ازاں شمولیت کے لئے آج سارے راستے بند نہیں کرنےچاہئیں۔ اس دھارے میں وہ سب لوگ شامل ہیں، جو پہلے انہی کی طرح سیاست دانوں کو کرپٹ، غدار اور یہاں تک کہ کافر کہتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے سیاسی تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ نہ وہ فوج کے اس طرح مخالف ہیں اور نہ فوج ان کی مخالف ہے، جس طرح عمران خان دونوں کو پیش کر رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں انتہائی کشمکش کے باوجود دنوں فریق اپنے راستے کھلے رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی چیز اس طرح اصولی اور غیرلچکدار نہیں ہوتی، جس طرح وہ اپنے اقتدار کے لئے بنائے ہوئے ہیں۔ اگر انہوں نے سارے راستے بند رکھے تو وہ شاید پاکستان کی سیاست میں کوئی فریق بھی نہ رہیں۔ ان کے بھارتی ایجنٹ یا غدار قرار دینے کے بیانیے پر صرف اسی طرح افسوس کیا جا سکتا ہے، جس طرح ان کے کرپشن کے بیانیے پر افسوس کیا جاتا رہا ہے۔ باقی ان کے مزاج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی بات پر ڈٹے رہتے ہیں۔

تازہ ترین