• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امتحان ہے پوری قوم کا…قائدین کا بھی، ان کے حامیوں کابھی، قائدین کا ایک ذرا زیادہ کہ جن کے رتبے ہیں سِوا، ان کی سِوا مشکل ہے۔ بس چند دن باقی ہیں، راہ میں چند مشکلات ابھی اور ہوں گی، شدید بھی ہو سکتی ہیں مگر بات صرف کچھ ہی دن کی ہے، انتخابات تک کی، جن میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔ اک ذرا حوصلے کی ضرورت ہے، قوم کو، اس کے رہنماؤں کو۔سب نے حواس برقرار رکھے، گھٹنے ٹیک نہیں دیئے تو یہ مرحلہ بھی گزر جائے گا، انتخابات ہو جائیں گے، ملک جمہوریت کی راہ پہ آگے بڑھ جائے گا، آگے بڑھتا رہے گا۔ جو کچھ ہو رہا ہے نیا نہیں ہے، پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ بم دھماکے بہت عرصے سے اس قوم کو نشانہ بنا رہے ہیں، یہ کارروائیاں انتخابات کی آمد پہ شروع نہیں ہوئیں، انتخابات سے پہلے بھی ہو رہی تھیں، ملک کے کئی شہروں میں۔ شاید ہی کوئی بڑا شہر بچا ہو جہاں بم حملے نہ کئے گئے ہوں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور کئی دوسرے شہروں میں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، دہشت پھیلائی جاتی رہی ہے۔
اور یہ نائن الیون کے بعد سے بھی شروع نہیں ہوئے۔ اس سے بہت پہلے سے ایسا ہوتا آرہا ہے، مختلف وجوہ کی بنا پر دہشت پھیلانے والے ہاتھ بدلتے رہے ہیں، دہشت گردی اسی طرح ہوتی رہی ہے۔ اسّی کی دہائی میں بھی اسی طرح بم دھماکے کئے جاتے تھے۔ اس وقت طالبان کا وجود نہیں تھا بلکہ ابھی یہ اصطلاح بھی سامنے نہیں آئی تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا، اپنے مقاصد کے لئے۔ اِس کی سرزمین مزاحمت کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے استعمال ہونے لگی۔ مزاحمت سوویت یونین کے خلاف تھی، اُس کے حامی یہاں خاصی تعداد میں موجود تھے، ایجنٹ بھی ہوں گے، حکومتِ پاکستان سے بوجوہ ناخوش تھے۔ امریکہ بہت دور تھا،”سبق سکھانے کے لئے“ پاکستان قریب ۔ بم دھماکے یہاں کرائے جاتے تھے۔کراچی میں بوہری بازار میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے14 جولائی 1987ء کو کئے گئے، اب تک لوگوں کو یاد ہیں۔ ستّر سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، بے گناہ شہری۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کئی دوسرے شہر بھی اسی طرح کی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے تھے۔ اخبارات گواہ ہیں، مختلف تاریخوں میں بم دھماکے ہوتے رہے تھے اور اِس سے بھی پہلے دہشت گردی ہوتی رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اُس کے خلاف بھٹو کے فعال اور جذباتی حامی، ان کے جاں نثار بجا طور پر احتجاج کرتے تھے۔کہیں بم پھاڑے جاتے، کہیں بسیں جلائی جاتیں، جہاز بھی اغوا کیا گیا۔ طویل ترین مدّت تک اغوا کاروں کے قبضے میں رہا۔ ایک ریکارڈ تھا۔
قوم ان سب کو پیچھے چھوڑ آئی، ان تمام ادبار سے نکل آئی اور اپنی منزل پر گامزن رہی۔ مشکلات آئیں، قوم نے برداشت کیں اور سرخرو ہوئی۔مشکلات اور شدائد سے نبردآزما ہونا، اس قوم کی فطرت ہے۔ یہ آگ اور خون کا دریا پار کر چکی ہے۔ قیام پاکستان کے لئے جتنی بھاری قیمت اس قوم نے ادا کی، تاریخ میں کم ہی قوموں نے کی ہو گی۔ امرتسر میں جہاں کبھی مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد رہتی تھی، آج اُن کا نام و نشان تک وہاں نہیں ہے، صرف امرتسر ہی نہیں پورے مشرقی پنجاب میں۔ مسجدیں نہ صرف ویران ہوئیں، وہاں شراب خانے کھل گئے۔ اجمیر میں ہمارے آبائی گھر کے سامنے واقع مسجد پر تالے پڑے ہوئے ہیں، کھنڈر بن چکی ہے۔ کبھی یہاں پر دادا فجر کی اذان دیتے تھے تو دور تک سنی جاتی تھی، شہر چھوٹا تھا آواز بہت بھاری۔ اور بھی کئی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں، وہاں کی باشندوں نے اپنے پیاروں کو چھوڑا، کچھ کو زندہ کچھ کو مقتول،اور اس ملک میں آگئے ، لٹے پٹے تھے مگر حوصلہ تھا، برقرار رہا۔
اب بھی یہ حوصلہ برقرار رہے گا، بم دھماکے ہو رہے ہیں، روز ہی ، کہیں نہ کہیں اور بے گناہوں کی جان لے رہے ہیں۔دھماکے کرنے والوں کا مقصد کیا ہے؟بظاہر لگتا ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کے لئے یہ سب دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اپنے ان مذموم مقاصد میں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے،اگر قوم حوصلہ برقرار رکھے،جو یہ رکھے گی۔ انتخابات پورے ملک میں ہونے والے ہیں، خراب صورتحال اگر بغور جائزہ لیں، بہت محدود مقامات پر ہے۔ خطرہ یقیناً دوسری جگہوں پر بھی ہے مگر آس پاس نظر ڈالیں تو حوصلہ بندھتا ہے۔ برابر میں ایک طرف ایران ہے۔ عراق کے ساتھ اس کی طویل جنگ کے دوران وہاں انتخابات ہوتے رہے۔ دہشت گردی نے ان کے حوصلے اس وقت بھی پست نہیں کئے جب پوری کابینہ ایک اجلاس کے دوران بم دھماکے میں اڑا دی گئی۔
دوسری طرف بھارت ۔ ابھی چند برسوں پہلے کی بات ہے بہار کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال خاصی تشویشناک تھی۔ انتخابات کے دن ووٹوں کے ڈبے اٹھا کر بھاگ جانے والے کرائے پر ملتے تھے، ہنگامہ کرنے والے بھی اور خون خرابہ تو ہوتا ہی رہتا تھا۔ اور ادھر آسام اور کچھ دوسری جگہوں پر آزادی کی تحریکیں، انتخابات مگر ہوتے ہیں۔1991ء میں سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو بم دھماکے میں ہلاک کردیا گیا۔ انتخابات چند دن کے لئے ملتوی ہوئے اور پھر پورے ملک میں عوام نے اپنے نمائندے منتخب کئے۔ زندہ قومیں اسی طرح مشکلات سے نبردآزما ہوتی رہی ہیں، ہوتی رہیں گی۔ انسانیت کی تاریخ میں صرف امن نہیں خوف کا بھی راج رہا ہے اور دہشت کا بھی، مگر تھوڑے وقت کے لئے۔
ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے، ایک ذرا حوصلے کی ضرورت ہے، اس پر قابو پانے کے لئے اس کے اثرات زائل کرنے کے لئے۔ ذمہ داری قائدین کی ہے۔ وہ سوجھ بوجھ سے کام لیں تو مایوسی دہشت گردوں کا مقدر بن سکتی ہے۔ بوہری بازار میں دو دھماکے ہوئے، پہلی بار انسانی اعضاء چھتوں اور بجلی کے تاروں پہ لٹکے نظر آئے تو ہر شخص دہشت زدہ رہ گیا۔ یہ منظر پہلے کب دیکھا تھا؟ ایسی سنگین واردات پہلے کب ہوئی تھی؟ بات جب آگے بڑھی، آئے دن وارداتیں ہونے لگیں تو اندرونی مزاحمت بڑھ گئی، انسانی فطرت بالآخر ہر خوف اور صدمے پر قابو پا لیتی ہے۔ دکھ اب بھی ہوتا ہے، دہشت کم محسوس ہوتی ہے اور خوف اس سے بھی کم۔ قائدین، تمام ہی سیاسی جماعتوں کے رہنما، اپنے حامیوں کو حوصلہ دیں، ان میں زندہ رہنے کی امنگ بڑھائیں، دہشت اور خوف کے اثرات زائل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ قائدین کی یہ ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ سب سر جوڑ کر بیٹھیں، حل تلاش کریں، مل جائے گا۔ دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف اپنے ردِعمل کا جائزہ لیں۔
مرنے والوں کا دکھ تو فطری ہے، ہوگا۔ ورثا کیا کریں یعنی آپ اور ہم؟ سوگ کریں، مرنے والوں کا حق ہے،ہڑتال نہ کریں۔ اس کے بہت سے منفی اثرات ہوتے ہیں ایک طرف تو انفرادی اور اجتماعی معیشت کو بھاری نقصان ہوتا ہے، آپ کا، ہمارا، قوم کا۔ بم دھماکے کرنے والوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا، متاثر ہوتے ہیں کاروباری اور ان سے بھی زیادہ کم آمدنی والا غریب مزدور۔ اور شہر کے گلی کوچے جب ویران نظر آئیں، دن بھر، ہفتے میں کئی دفعہ، تو خوف کا ایک تاثر ان سے جڑ جاتا ہے، دہشت گرد کا ایک اور مقصد پورا ہوتا ہے، خوفزدہ کرنا۔ ہڑتال کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیں دوسرے راستے تلاش کریں، قوم کو ذہنی طور پر تیار کریں، جس امتحان کا ہمیں سامنا ہے اس کے لئے قوم کو تیارکریں تو قوم اس میں بھی سر خرو ہوگی کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی۔
تازہ ترین