• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے2013ء کے انتخابات پاکستان میں نہیں افغانستان میں ہو رہے ہیں۔
شدت پسند طالبان نے”وہ لال بتی جائے گا“ ذہنیت کے تحت ووٹروں کو پہلے سے ہی دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ پولنگ والے دن پولنگ اسٹیشنوں سے دور رہیں۔ انہوں نے ملک میں ان کے اپنے اپنے اثر کے علاقوں میں دہائیوں سے تین پاپولر پارٹیوں کی ریلیوں اور انتخابی جلسوں پر حملے کر کے ان کے درجنوں کارکنوں اور ووٹروں کو خون میں نہلایا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہو کہ عوامی نیشنل پارٹی یا ایم کیو ایم ان کے امیدواروں اور لیڈروں کی زندگیوں کو شدید تر خطرہ ہے۔
ادھر بلوچستان میں بلوچ شدت پسند علیحدگی پسندوں کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والی بلوچ پارٹیوں اور بلوچ رہنماؤں اور ان کے ووٹروں کو تشدد و حملوں کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اگرچہ سندھ میں انتخابات پر یقین نہ رکھنے والے انتہاپسند سندھی قوم پرست گروپ، بلوچ شدت پسندوں اور طالبان کے برعکس ، سندھ میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کو تاحال تشدد کی دھمکیاں نہیں دے رہے لیکن الفاظ کی جنگ میں وہ سوشل میڈیا پر یا زبانی کلامی کہتے سنے گئے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینا سندھ سے غداری کے مترادف ہے۔
سندھ بشمول کراچی ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی اور بی این پی کیلئے اپنی اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے علاقہ غیر بن چکے ہیں۔ انتخابات اور انتخابی مہم پاکستان مسلم لیگ (ن)، عمران خان کی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت ان تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کیلئے حلال قرار دیئے گئے ہیں جنہیں طالبان صحیح اور صالح سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عملی طور پر انتخابی مہم صرف پنجاب میں عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت گڑھی خدا بخش اور لیاری میں انتخابی جلسہ بغیر خطرے کے نہیں کر سکتی، نہ ایم کیو ایم لانڈھی کورنگی میں نہ ہی اے این پی پشاور اور مومن آباد یا بنارس کراچی میں لیکن نواز شریف جھنگ میں اپنی انتخابی مہم کے جلسے سے خطاب کر سکتے ہیں اور عمران خان گھنٹوں گھنٹوں ہزاروں کے جلوسوں میں شورش زدہ خیبر پختونخوا سر کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ حالیہ دنوں میں نواز شریف بھی ٹنڈو الہ یار سندھ میں اپنے انتخابی جلسے میں میدان پر بندوق بازوں کی بندوقوں کے ممکنہ خطرے تلے تیتر کی طرح نہتے سندھی عوام سے کئی سو گز دور سے اسٹیج پر سے ایک بلٹ پروف شیشے والے بند کیبن میں سے خطاب کرتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ انتخابات سے کئی ماہ قبل طالبان کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان میں ایم کیو ایم اور بلوچ پارٹیوں کی انتخابی مہم کے دوران ان پر حملوں کی دھمکیوں والے بیانات میں وہ سندھی شدت پسند قوم پرست اور بلوچ لبریشن آرمی اور سندھو دیش لبریشن آرمی والوں کو مشترکہ حملے کرنے کیلئے اتحاد کے بھی مشورے دے چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں مین بیلٹ کے خلاف بُلٹ یا گولی کی سیاست انتخابی میدان میں کب کی اتر چکی ہے۔
ملک میں عوامی سیاست کو بموں گولیوں، بندوق اور بارود سے منتشر کرنے کی حکمت عملی بازیگروں نے بینظیر بھٹو کی 18/اکتوبر2007ء کیلئے تشکیل دی ہو گی جب دس برس جلاوطنی سے واپسی کے بعد ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لاکھوں لوگوں نے کراچی میں ان کا استقبال کیا تھا اس جلوس پر خودکش حملہ کیا گیا تھا،اس حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈکے طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عبد الرحمن السندی کا نام لیا گیا تھا جس کا تعلق سندھ کے دادو ضلع سے تھا پھر بینظیر بھٹو کی پشاور یا شاید چارسدہ آمد پر بینظیر کی آمد دیدنی تھی جب لوگوں نے طالبان اور ان جیسے گروہوں کے خوف کی چادر اتار پھینکی اور بینظیر جیسی عوامی لیڈرکا استقبال کیا تھا۔
پھر کچھ دنوں بعد اسی لیاقت باغ میں اسے بھرپور کوریو گرافی اور اداکاری سے قتل کردیا گیا:
وہ خون میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھی بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
اسے ریاستی قوتوں نے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے تحت قتل کرایا کہ غیر ریاستی عناصر نے؟ یا پھر اس کے اپنوں نے وہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ذبح کرا دی؟ جیسے سوالات شاید کوئی نہیں جان سکے لیکن یہ صاف عیاں ہے کہ بینظیر بھٹو کا قتل ملک میں عوامی سیاست اور ایک عوامی لیڈر کا قتل تھا۔ وہ حسن جو پاکستانی عوام کو صبح سویرے بینظیر بھٹو جیسی عوامی خاتون سیاستدان کی تصویروں میں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی اسکرین پر نظر آتا تھا اب اس کی جگہ زرداری اور ایسی کئی غیر پاپولر تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے پاکستانی سیاست سے اس کا حسن اور روح کوچ کر گئی ہے، اسی طرح ان کی پارٹی کے ساتھ بھی ہوا۔
مجھے کوئی دوست میرپور ساکرو سے بتا رہا تھا یہ اویس مظفر ٹپی نے اپنے انتخابات کے لئے کرنسی نوٹوں کے تھیلے اور پیٹیاں نہیں کمرے بھر کر رکھے ہیں۔ مقامی لوگوں میں دو سو موٹر سائیکل بھی تقسیم کی گئی ہیں۔
اگر طالبان اور دیگر شدت پسند گروہ یا قاتل جتھے پی پی پی کے انتخابی جلسوں پر حملے نہ بھی کریں تب بھی اس کے امیدواروں کو سندھ کے عوام کی طرف سے پرانے جوتوں، انڈوں، ٹماٹروں اور تازہ اُپلوں سے فقیدالمثال استقبال کا سامنا ہے پھر وہ چاہے پیر مظہر ہوں، ایاز سومرو ہوں کہ صدر زرداری کی بہن عذرا پیچوہو ہوں۔ پی پی پی کی قیادت کیلئے لوگوں نے بینر لکھ کر لگا رکھے ہیں کہ ”ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں“۔ لیکن وہ جو اصل پاپولر سیاست اور ووٹ کا خوف غیر پاپولر قوتوں و عناصر میں بیٹھا ہوا ہے وہ خوف وہی تھا جس کے تحت27 دسمبر کو بینظیر بھٹو لیاقت باغ یا کمپنی باغ میں قتل کر دی گئیں۔ اب جب انتخابات آئے ہیں تو انہیں منفی قوتوں نے پنجاب کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ہر جلسے کو27 دسمبر اور لیاقت باغ بنایا ہوا ہے۔ ایسی قوتیں چاہتی ہیں کہ اگر کوئی پاپولر بھی ہو تو ان کی مرضی اور ان کی سند سے ہو۔ اسی لئے انہوں نے اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی جیسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہوئی ہے۔ یہ جو پارٹیاں بہرحال خود کو سرعام سیکولر کہلاتی ہیں، خاص طور اے این پی جیسی پارٹیاں جن کو پاپولر اور سیکولر پختون قوم پرستی کی بھی سزا ملی ہے۔ سیکولر پختون قوم پرستی کا ہمیشہ کیلئے راستہ روکنے کیلئے پختون سماج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔
یعنی انتخابات کو ملتوی کرانے والے منے بھائی ٹائپ قوتیں بھی آخر وقت تک لگی ہوئی ہیں۔ ایک مثبت بات یہ ہے کہ طالبان کی انتخابی دہشت گردی نے اے این پی اور ایم کیو ایم کو ایک چھت کے نیچے بٹھادیا ہے۔ وہ دیگ کہ جس کو آگ پر چڑھانے کی شروعات امیدواروں سے ضیاء دور کی یاد میں پوچھے جانے والے غیرمتعلقہ سوالات سے ریٹرننگ افسروں نے کی تھی اس کا ڈھکنا اب طالبان کھولنے کو میدان میں ہیں۔ کئی دل جلے اسے ”الیکشن کمیشن آف طالبان“ قرار دے رہے ہیں لیکن بلٹ کا مقابلہ بیلٹ کے ساتھ ضرور ہے۔ جنرل کیانی کا بے وقت کا بیان کہ ملک بنا ہی اسلام کیلئے تھا ایسے عناصر کو ان سیکولر لبرل پارٹیوں کے خلاف ایک اور ہری جھنڈی ہے۔
نگران حکومت، الیکشن کمیشن، عدلیہ ان پارٹیوں کے خلاف دہشت ناکی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ فوج اور اس کی ایجنسیاں بھی جو کہ ویسے تو غائب شدہ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ان کی جیبوں میں ”سندھو دیش لبریشن آرمی“ یا ”پاکستان زندہ باد“کی پرچیاں یا پرچے ڈال کر پھینک جاتی ہیں لیکن طالبان انتخابی دہشت گردوں کو پکڑنے پر شاید ان کے بھی پر جلتے ہیں! کیا اس انتخاب کی ان کلنگ فیلڈس کا تعلق بھی افغانستان کے اگلے روڈ میپ سے ہے؟
تازہ ترین