• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا تھا جس کے اثرات آج بھی نمایاں ترین ہیں کہ بادشاہتوں، امارتوں، آمریتوں کے علاوہ یہی سب کچھ جعلی جمہوریتوں کے پردے میں بھی جاری و ساری ہے۔ اکلوتی ایٹمی قوت کا بھی حقیقی حال یہ ہے کہ اس کے 50فیصد سے زیادہ وسائل پر ایک تا ڈیڑھ فیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے ۔

اور تو اور پیٹرو ڈالرز میں ڈبکیاں لگاتے دولت مند ملکوں کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے نے اصل ضرب لگائی ہی طاقت اور دولت کی تقسیم پر کہ یہ دونوں ہی ایک سکے کے دو رخ ہیں جو بالآخر معاشرہ سے تعلیم، تخلیق اور تعمیر کی صلاحیتیں چھین کر اسے بانجھ اور طفیلی معاشرہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

اسلام میں طاقت اور دولت کی تقسیم کا تصور کیا ہے؟ میرے ناقص فہم کے مطابق اسلامی معاشرہ میں سیاسی طاقت اور دولت کو اوپر سے نیچے تک منصفانہ انداز میں کچھ اس طرح محو گردش، رواں دواں رہنا چاہئے جیسے ایک صحت مند انسانی جسم میں سر تا پا خون گردش کرتا ہے یعنی چند ہاتھوں میں سیاسی طاقت اور ملکی وسائل یعنی دولت کا ارتکاز پورے بدن یعنی معاشرہ کو مفلوج کر دینے کے مترادف ہے اور یہی کچھ ملوکیت کے بعد مسلمان معاشروں کا مقدر ٹھہرا۔

خلافت دی گئی ہوتی ہے، ملوکیت لی گئی ہوتی ہے چاہے جبراً لی جائے یا قیمتاً خریدی گئی ہو۔ عوام کی طرف سے دی گئی شے ’’امانت‘‘ ہوتی ہے جبکہ لی گئی ’’حکمرانی‘‘ ذاتی ملکیت ہوتی ہے، جو منصفی نہیں سو فیصد من مانی کے گرد گھومتی ہے اور نسل در نسل منتقل ہونا چاہتی ہے، چاہے انجام بھیانک ترین ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمان حکمرانوں کی تاریخ ایسے ہی انجاموں کی تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ سید مودودیؒ مرحوم و مغفور نے کس کمال سے اس عروج و زوال کا فرق واضح فرمایا ہے کہ’’لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسر اقتدار آتے رہے۔ بیعت سے اقتدار حاصل کرنے کی بجائے اقتدار سے بیعت حاصل ہونے لگی‘‘ ۔

اس میں KEY WORDSہیں ’’آزادانہ اور کھلے مشورے‘‘ تو جب میں نے یہ ورد شروع کیا کہ ہماری جمہوریت میں حکمران لوگ ووٹ لے کر نہیں، ووٹ چھین کر اقتدار میں آتے ہیں تو اصل بات وہی تھی جسے بیشمار مختلف فورمز پر بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ ’’چھیننے‘‘ کا مطلب صرف گن پوائنٹ یا نوک شمشیر پر چھیننا ہی نہیں ہوتا، اس کے 101’’مہذب‘‘ طریقے بھی ہوتے ہیں۔ایسی ’’واردات‘‘ یا وارداتیں معاشروں کے ساتھ کرتی کیا ہیں؟

اس طرح مسلط ہوئے حکمرانوں کے رویے جینوئن طریقے سے آئے حکمرانوں کے طور طریقوں سے یکسر مختلف بلکہ ان کی ضد ہوتے ہیں جن میں ملکی وسائل یعنی دولت کے ساتھ کھلواڑ سرفہرست ہوتا ہے جو ’’طاقت بذریعہ دولت اور دولت بذریعہ طاقت‘‘ کے شیطانی چکر کو جنم دے کر آبادی کی بھاری اکثریت کو جسمانی، روحانی، ذہنی، جذباتی، نفسیاتی، سماجی طور پر برباد کر کے رکھ دیتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں آدمی یا انسان نہیں بلکہ MANIMALSاور SUBMEN بڑھتے چلے جاتے ہیں، انسان گھٹتے چلے جاتے ہیں اور معاشرہ کے سر پیر کا ہی پتا نہیں چلتا۔ بانہوں کی جگہ ٹانگیں اگنے لگتی ہیں، آنکھیں سروں کے پیچھے شفٹ ہو جاتی ہیں، دل بائیں سے دائیں منتقل ہو جاتے ہیں اور آدمی سر تا پا بھوکے معدوں کا روپ دھار لیتے ہیں، اعضا، اعضا کو کھانے لگتے ہیں یا کوئی ایک عضو باقی اعضا کو ٹیک اوور کر لیتا ہے تو پھر معصوم بچے بھی محفوظ نہیں رہتے۔

ایسی وارداتوں کے نتیجہ میں پہلا ڈاکہ اظہار رائے کی آزادی پر پڑتا ہے ، جسے ’’ملک و قوم کا وسیع تر مفاد‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور کسی کے منہ میں وہ زبان ہی باقی نہیں رہتی جو سرعام اپنے امیر سے یہ پوچھ سکے کہ آپ کے کرتے کا کپڑا کہاں سے آیا؟ اور امیر بھی کیسا؟ حضرت عمر بن خطابؓ جیسا۔

آج کھربوں روپے کا حساب و احتساب ہو تو کتنی متانت و شرافت سے اسے انتقام قرار دے دیتے ہیں سو مصلحت مصالحت، کچھ لو کچھ دو، مک مکا، مکالمہ، GIVE & TAKEسودے بازی، منافقت، ضمیر فروشی سکہ ہائے رائج الوقت ہو جاتے ہیں۔

شورائیت، مشاورت کے مزارِ اقدس پر ’’کچن کیبنٹ‘‘ تعمیر ہوتی ہے، میزان عدل کے پلڑے ہم وزن نہیں رہتے، معاشرہ افقی و عمودی، اقتصادی و سماجی طور پر تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔ بندے بچھوئوں کی قطار، جس میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی قسم کا سردار جو اپنی اپنی بساط کے مطابق قانون کی توہین و تضحیک کرتا اور سماج سرکس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اپنے اردگرد دیکھیں اور مطلع فرمائیں یہ انسانی سماج ہے یا سرکس؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین