• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

’’آئینِ نو‘‘ کے جاری زیرِ بحث موضوع ’’براڈ کاسٹ پولیٹکس‘‘ میں جن تین کیسز امام خمینی، نواز شریف اور ’’الطاف حسین‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ فقط ہوا کے دوش پر اُن کی سیاست (براڈ کاسٹ پولیٹکس) اور اُس کی اثر پذیری کے حوالے سے ہی ہے۔ وگرنہ تینوں کے کردار، مجموعی شخصیت اور سیاسی مقصد کا فرق تو جتنا متضاد ہے، اُتنا ہی عیاں بھی ہے۔ یہ پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ دنیا میں (شاید) عملی سیاست کے اِس انوکھے ماڈل کی پریکٹس اِن تینوں شخصیات ہی نے کی۔ بنیادی طور پر تو یہ Mass Communicationکی سائنس کا (تحقیق و مطالعے کے حوالے سے) بہت دلچسپ موضوع ہے چونکہ منتخب اسٹڈیز میں سے دو کا تعلق پاکستان کی عملی سیاست کے اُن پہلوئوں سے ہے جنہوں نے ہماری قومی سیاست، قومی نفسیات حتیٰ کہ معیشت کو بھی متاثر کیا اور کر رہے ہیں، اِس لئے اِس میں ابلاغیات و سیاسیات کے اساتذہ، ایڈوانس اسٹڈیز کے طلبہ اور سوشل سائنٹسٹس کی دلچسپی کا سامان ہونے کے علاوہ یہ پڑھے لکھے متوسط طبقے، سیاست دانوں، کارکنوں اور میڈیا منیجرز کے لئے بھی پُرکشش ہوگا۔ سو خاکسار زیرنظر موضوع کا تجزیہ اپنے ایریا آف اسٹڈیز اینڈ انٹرسٹ کے حوالےسے ’’کمیونیکیشن سائنس‘‘ کی روشنی میں ہی کرے گا، جو اب فقط صحافت ہی نہیں بلکہ کسی بھی بڑے سے بڑے علم کی طرح مکمل باڈی آف نالج (ڈسپلن) بن کر بلند درجے کی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

قارئین کرام! کمیونیکیشن (ابلاغ) اللہ سبحان تعالیٰ کے انسان کو عطا کئے تین اعلیٰ ترین اشراف، عقلِ سلیم (ہیومن برین)، ابلاغ (کمیونیکیشن) اور انسانی جسم کی حیرت انگیز ساخت میں سے ایک ہے۔ کل انسانی زندگی کا ارتقا اور اِس کے نتیجے میں ہونے والی معجزاتی ترقی، اللہ کے عطا کئے اِن ہی اعلیٰ ترین اشراف سے عبارت ہے۔ آج کمیونیکیشن اور اس کی ایک وسیع تر شکل (Mass Communication) فقط صحافت ہی نہیں بلکہ میڈیکل، فارمیسی، نیچرل سائنسز اور انجینئرنگ جیسے علوم کی طرح کی مکمل باڈی آف نالج بن چکی ہے۔ اس کا بالکل بنیادی سبق ابلاغی عمل (Communication Process) ہے۔ اس کے چار اجزائے ترکیبی (Elements) ہوتے ہیں۔ پہلا Source(ابلاغ کرنیوالا) دوسرا، پیغام (Message) یعنی سورس کے وہ مندرجات جو وہ (Source)اپنے ہدف (ٹارگٹ آڈیئنس) جسے ڈسپلن کی زبان میں Receiver(پیغام وصول کرنے والا یا والے) کہا جاتا ہے۔ ان ہی کے لئے ٹارگٹ آڈیئنس کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ Receiversیا ٹارگٹ آڈیئنس ابلاغی عمل کا چوتھا جزو ترکیبی ہے، جبکہ تیسرا وہ پاور فل چینل آف کمیونیکیشن ہے جسے استعمال کرکے سورس (مقرر، خطیب، قائد رہبر وغیرہ) عوام الناس (Receiver)خواہ یہ لاکھوں، کروڑوں حتی کہ اربوں کی تعداد میں کیوں نہ ہوں ایک لمحے میں اپنا پیغام ہوا کے دوش پر (بذریعہ سگنل) ان تک پہنچانے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ پاور فل چینل آف کمیونیکیشن کا استعمال ڈسپلن کی زبان میں براڈ کاسٹ کہلاتا ہے، اسی کے سہارے پاکستان میں سات سمندر پار کی محفوظ و پرآسائش پناہ گاہوں سے جو سیاسی ابلاغ برائے سیاست ’’الطاف بھائی‘‘ برسوں کرتے رہے، اور اب اس ماڈل کو ’’زیر علاج‘‘ مرد بیمارمیاں نواز شریف نے لندن میں اختیار کیا۔ اس کو پہلی مرتبہ امام خمینی نے پیرس میں استعمال کرکے اپنے ملک میں وہ اسلامی انقلاب برپا کیا جس کے جھٹکے صرف ایران میں ہی نہیں پورے خطے اور یورپ و امریکہ تک محسوس ہوئے، اور ان سے علاقائی اور عالمی سیاست آج تک متاثر ہے اور ایران کی سیاست، نظام اور عالمی حیثیت مکمل پلٹا کھا گئی۔

ایم کیو ایم کی پُرتشدد سیاست کی انتہا کے بعد ملٹری آپریشن کی دھمک سے ’’الطاف بھائی‘‘ کے لندن فرار کے ایک عرصہ بعد پاکستان میں جو پیغامات ہوا کے دوش پر کراچی کیلئے خصوصاً اور پاکستان بھر میں بذریعہ میڈیا لینڈ ہوتے رہے، اس نے کراچی کو جیسے خود ساختہ جلا وطن قائد کی مٹھی میں بند کردیا تھا۔ ’’الطاف بھائی‘‘ نے اپنی دہشت، دبدبے، کارکنوں کی عقیدت، ان کے خوف، زبردستی کی پیروی کرانے کیلئے ’’براڈ کاسٹ سیاست‘‘ کو اتنا منظم خود لندن میں کیا اور کراچی میں کرایا کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ سات سمندر پار بیٹھ کر بھی کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ حکومتوں میں بھی کراچی کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور اپنی اس حیثیت میں اپنے اصل ٹارگٹ آڈیئنس ’’مہاجرین‘‘ اور شہر عظیم پر جو ستم ڈھائے ہم سب پاکستانی اور دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔ اس ’’براڈ کاسٹ پولیٹکس‘‘ نے الطاف کو مہلک اعتماد دیا جس کا گراف بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھا کہ وہ ریاست پاکستان کی جان کو آنے لگے تو ایک ہی لمحے میں ہوا کے دوش کی سیاست کافور ہو گئی۔ کراچی میں امن کی راہ نکل آئی، ایم کیو ایم بکھر گئی۔ جو دھڑا کراچی میں قابلِ قبول قرار پایا، تب پایا جب اس نے الطاف کو مزید رہبر ماننے سے توبہ کر لی، اسکی پارلیمانی حیثیت ثانوی ہو گئی اور الطاف اپنا پاکستانی امتیاز کھو بیٹھا۔

میاں نواز شریف جو ’’براڈکاسٹ پولیٹکس‘‘ کی طرف آئے اس کی فقط دو وجوہات ہیں ایک لندن کی محفوظ پناہ گاہ، دوسرا ’’پاور فل چینل آف کمیونیکیشن‘‘ جو آ ج کے جدید دور میں آسان تر ہوگیا ہے لیکن امام خمینی جیسے عظیم قائد کی براڈ کاسٹ ’’سیاست‘‘ کے نتائج ایسے نکلے کہ پوری ایرانی قوم کو ہائی ڈگری پر موبلائز کردیا، فقط شاہ رجیم نہیں اس کے سرپرست امریکہ کو خالی خولی للکارا نہیں بلکہ ایران پر عوام کو بیزار کر دینے والے اثر کو خلیج میں غرق کردیا۔ انقلاب برپا اور آمرانہ شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ انقلاب اپنے اصل مقصد سے بھی کچھ ڈی ٹریک ہوا۔ اس سے ایران اور خطے میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں لیکن ایران کتنا خود مختار اور سخت جاں بنا یہ بھی اب ثابت شدہ ہے۔

ہمارے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں صاحب پھر مار کھا گئے۔ ہر دور میں ان کے میڈیا منیجرز اور خود انہوں نے اتنے بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹرز کئے کہ ان کی حکومتیں ڈگمگاتی ڈگمگاتی ختم ہوگئیں۔ اب جو انہیں ’’براڈ کاسٹ پولیٹکس‘‘ کی طرف لگایا گیا یا وہ محفوظ پرآسائش پناہ گاہ کے اعتماد سے خود لگ گئے، یہ معاملہ فقط پاور فل چینل آف کمیونیکیشن کی آسان تر دستیابی کا نہیں۔ آپ اور ’’الطاف بھائی‘‘ وہ سورس آف کمیونیکیشن ہر گز نہیں جو امام خمینی تھے۔ اِن کی سورس کریڈیبلٹی اِن کی دیانت، انقلاب آفریں پیغام سازی اورسحر انگیز شخصیت نے پوری ایرانی قوم کو ایٹ لارج امام صاحب کا گرویدہ بنا دیا اور وہ بلند درجے پر چارج ہوئے۔ آپ کا ٹارگٹ آڈیئنس محدود، مشکوک، محبوس اور مجبور ہے۔ پھر پیغام سازی کے بھی کچھ علمی تقاضے ناگزیہ ہوتے ہیں جن سے آپ یا آپ کی ابلاغی ٹیم کی عدم واقفیت آپ کو (حکومت تو پہلے ہی گنوائی گئی) اور بڑے خسارے نہ دے جائیں، جس کے امکان خاصے ہیں۔ آپ نے اپنی ’’براڈ کاسٹ پولیٹکس‘‘ کا آغا ز وہاں سے کیا جہاں سے الطاف نے (تقریباً) ختم کیا۔ ساری سیاست کا تفصیلی تجزیہ کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کی روشنی میں ہوگا تو آپ کو سیاسی خسارے کی واضح نشاندہی ہوگی اور معلوم ہوگا کہ پائوں پر خود ہی کیسے کلہاڑیاں چلائیں۔

تازہ ترین