• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماوٴزے تُنگ نے کہا تھا‘ جب کوئی قوم بیدار ہو جاتی ہے‘ کچھ کرنے کا ٹھان لیتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ انسانی تاریخ میں کئی قوموں نے ناممکنات کو ممکن کر دکھایا ‘میرے نزدیک اس سلسلے کی قریب ترین مثال پاکستان کا قیام ہے۔ 1970ء کے انتخابات ہونے جا رہے تھے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کسی قطار شمار میں نہ تھی سب تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ نوزائیدہ جماعت چند نشستیں جیت لے تو بڑی بات ہے۔ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کا طوطی بول رہا تھا‘ مغربی پاکستان پر مسلم لیگوں کی اجارہ داری تھی ۔بھٹو پہلا الیکشن لڑ رہے تھے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 43 سالہ یہ نوجوان سیاستدان انتخابی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو چاروں شانے چِت کر دے گا مگر نتائج آئے تو بڑے بڑے برج الٹ گئے اور پیپلزپارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ میرے ہم عصر نوجوان جو اس انہونی کو نہیں دیکھ سکے ان کے سامنے بارک اوباما کی مثال موجود ہے کینیا سے ایک طالب علم ہوائی آیا‘ دوران تعلیم این ڈنہم نامی گوری سے شادی ہو گئی 2 سال بعد علیحدگی ہوئی مگر اس دوران ایک بچے کی ولادت ہو چکی تھی۔ بارک اوباما سینئر اپنے طفل کوکب کو ماں کے پاس چھوڑ کر واپس لوٹ گیا۔ ماں نے دوسری شادی کر لی اور یہ بچہ جس نے امریکہ کا صدر منتخب ہونا تھا‘ لاوارثوں کی طرح پلتا رہا۔ ایک عام سا پروفیسر جس کا سیاسی کیریئر سینیٹ کی رکنیت سے شروع ہو کر کسی پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت تک ختم ہو جانا تھا‘ اس نے 10 فروری 2007ء کو امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی‘ مخالفین نے پھبتیاں کسنا شروع کر دیں کہ یہ منہ اور مسور کی دال‘ ایک سیاہ فام جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں‘ ایک مسلمان کے نطفے سے پیدا ہونے والا افریقی امریکی صدارت کا خواب دیکھنے لگے تو لوگ اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری چند ماہ بعد وہ اپنے انتخابی جلسے میں 75 ہزار شرکاء جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا تو سیاسی بزرجمہروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سیاسی مخالفین نے سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا‘ سیاہ فام پروفیسر نے مارٹن لوتھرکنگ کے شہرہ آفاق خطاب سے ”میرا ایک خواب ہے “I have a dream کا نعرہ لیا اور خود کو تبدیلی کے استعارے کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ 4 نومبر کو لوگ گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلے تو ان کے ہاتھوں میں اوباما کی تصاویر والے پلے کارڈ تھے اور ان پر ایک ہی جملہ تھا ”یس وی کین“۔ آپ واشنگٹن سے تہران چلے آئیں اور احمدی نژاد کی انتخابی مہم اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہاشمی رفسنجانی جیسے منجھے ہوئے سیاستدانوں کی موجودگی میں اس لوہار کے بیٹے کی جیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا مگر تبدیلی کو ترسے ہوئے لوگ ”یس وی کین“ کا نعرہ لگا کر نکلے اور انہونی کر دکھائی۔
انتخابی نعروں کی چکاچوند میں آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں تو میں سوچوں کے سمندر میں کھو جاتا ہوں‘ کیا مارٹن لوتھرکنگ کی طرح ہمارے دامن میں بھی کوئی ایسا خواب ہے جو حقیقت بن سکے؟ کیا ہم بھی11مئی کو ”یس وی کین“ کے جذبے سے سرشار ہو کر نکلیں گے اور ایک نئی تاریخ رقم کر پائیں گے؟ جس قوم نے 43 سالہ بھٹو کو قیادت کی خلعت فاخرہ پہنا دی وہ 60 سالہ کپتان کو ایک اننگ کھیلنے کا موقع دے گی؟ میرا خیال ہے ہماری کرکٹ ٹیم کبھی ہیرو کبھی زیرو کی جیتی جاگتی مثال ہے تو ہم خود بھی دنیا کی سب سے زیادہ ”ان پری ڈکٹ ایبل“ قوم ہیں۔ لڑنے مرنے پر آجائیں تو روس جیسی سپر پاور کے بخیئے ادھیڑ دیں۔ خرقہ پوشوں کا یہ گروہ خانقاہوں سے نکل پڑے تو پرویز مشرف جیسا ڈکٹیٹر گھٹنے ٹیک دے لیکن یہ قوم بے حسی کی چادر اوڑھ لے تو بھٹو جیسا لیڈر پھانسی چڑھ جائے اور کہیں صدائے احتجاج بلند نہ ہو۔ میرا خیال ہے ہمارے ووٹر بھی ”ان پری ڈکٹ ایبل“ ہیں۔
آئندہ انتخابات میں کون سی جماعت فتح یاب ہوگی؟ یہ سوال ہر چوپال اور بیٹھک میں زیربحث ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھے تجزیہ نگار انتخابی نعروں‘ منشور‘ جلسوں کے زورشور اور ہر حلقے کے امیدواروں کو مقبولیت کے ترازو میں تول کر دیکھنے کے باوجود کوئی حتمی بات کرنے سے گریزاں ہیں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہے کہ کوئی جماعت کتنی نشستیں جیتے گی۔ یقیناً عوامی سروے بھی ہوا کا رُخ بتاتے ہیں اور جلسے بھی امیدواروں کو اونچا اڑاتے ہیں مگر میں ان پیمانوں پر انحصار نہیں کرتا۔ مال و دولت کے بل بوتے پر ووٹ خریدے جا سکتے ہیں‘ عقیدت مندوں کے زور پر جلسوں کی رونق بڑھائی جا سکتی ہے‘ میڈیا کے زور پر کسی مخصوص جماعت کے حق میں رائے ہموار کی جا سکتی ہے‘ ڈوریں ہلانے والے اور جھرلو گھمانے والے بھی اثر انداز ہوتے ہیں مگر جب ہوائیں آندھیوں میں تبدیل ہو جائیں‘ مدوجزر جوار بھاٹا کی صورت اختیار کر لے اور معمولی طغیانی سیلاب ِبلا کی مانند سب کچھ خس و خاشاک کی ماند بہا لے جانے کا تہیہ کر لے تو کوئی طاقت بند باندھنے کی ہمت نہیں کر سکتی،کیوں کہ جب ضبط کے پُشتے ٹوٹتے ہیں تو انقلاب کے سیلاب امڈ پڑتے ہیں جیسے ہمارے ہاں 70ء کی دہائی میں بھٹو کی ہوا چلتے اور پی این اے کی تحریک کے دوران یہ ہوا اکھڑتے سب نے دیکھی۔ اسی طرح میں تحریک انصاف کی ہوا کو بلاخیز طوفان کی صورت اختیار کرتے دیکھ رہا ہوں۔ یہ رائے قائم کرنے سے پہلے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت جانچنے کیلئے میں گزشتہ کئی ہفتوں سے چھاپہ خانوں کے چکر لگا رہا ہوں اور طباعت و اشاعت کے شعبہ سے وابستہ ان بے نام کارکنوں کے روز و شب سے آگہی حاصل کر رہا ہوں جو کسی وابستگی کے بغیر پبلسٹی آئٹم تیار کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ انتخابات اخبارات‘ ٹی وی چینلوں سمیت پرنٹنگ سے وابستہ تمام افراد کے لئے خوشحالی کا پیام لے کر آتے ہیں اور ان دنوں میں ان غنچوں پر بھی بہار آ جاتی ہے جو خزاں رسیدہ موسموں کے بے رحم تھپڑوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مرجھا چکے ہوتے ہیں۔ یہ سروے‘ یہ تجزیہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ کسی چھاپہ خانے پر چلے جائیں‘ کسی پبلسٹی آئٹم والے ورکر سے پوچھ لیں کہ کس جماعت کی شرٹس‘ کیپس‘ بیج، جھنڈے اور دیگر مصنوعات سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہیں۔ طباعت کے شعبہ سے وابستہ لوگ بتائیں گے کہ دیگر جماعتوں کے پبلسٹی آئٹم متعلقہ امیدوار خود تیار کرا رہے ہیں‘ ان کے کارکن خرید رہے ہیں مگر تحریک انصاف کے پبلسٹی آئٹم نہ صرف سب سے زیادہ فروخت ہو رہے ہیں بلکہ عام افراد خود خرید کر لے جا رہے ہیں۔
میرا خیال ہے عمران خان ہمارے ہاں تبدیلی کا استعارہ بن چکا ہے‘ میں اس حوالے سے زیادہ خوش گمان تو نہیں کہ 11 مئی کو تحریک انصاف کلین سوئیپ کر جائے گی مگر نتائج اس قدر حیران کن ضرور ہوں گے کہ دو تہائی اکثریت کا خواب دیکھنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ یہ کالم حلقہ وار جائزے کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم میرا خیال ہے کہ 7 دسمبر 1970ء کو بھٹو نے جتنی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی 11مئی 2013ء کو عمران خان کی جھولی میں اس سے زیادہ سیٹیں ہوں گی مگر مسلم لیگ (ن) اتنی نشستوں پر کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی جتنی سیٹوں پر عوامی لیگ کو کامیابی ملی تھی۔ مجھے تو یہ نتائج نوشتہ دیوار کی طرح واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ اپنے شہر‘ گلی‘ محلے میں نکل جائیں اور بے ربط انداز میں 10 لوگوں سے پوچھیں‘ ووٹ کس کو دیں گے؟ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ رنجیدہ و ستم رسیدہ لوگوں کی پیشانیوں پر جلی حروف میں لکھا یہ جملہ ہر عاقبت اندیش شخص بآسانی پڑھ سکتا ہے کہ ان انتخابات میں روپے پیسے ‘حسب نسب ‘جاگیرداری و سرمایہ داری کو شکست ہو گی اور جنون فتح یاب ہو گا۔ پاکستان کے لوگوں کے چہروں پر ایک تحریر صاف نظر آرہی ہے"Yes we can"۔
تازہ ترین