• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہماری مسلم سوسائٹیوں کے کچھ حکمران اس بھول میں ہیں کہ وہ نظریہ جبر کی بدولت اپنی حکمرانی کا الو سیدھا کر لیں گے یا قدیمی ادوار جبر دوبارہ واپس لے آئیں گے۔ ہمارے مسلم ممالک کے چند حکمران شاید نہ صرف خود دور سلطانی کے نشے میں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہ شراب طہور پلانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ڈرامے بنائے اور دکھائے جا رہے ہیں، انہیں غور فرمانا چاہیے کہ آج کے دور میں قوم کو ایسے کسی سراب کا خواب دکھانا سوائے لولی پاپ کے اور کچھ نہیں۔ سلطانی جبر کے ادوار کو آپ کتنا ہی مقدس میک اپ کر کے دکھا لیں ،ان کی وحشت ختم نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں انسانی شعور ارتقائی منازل طے کرتا گیا قہر سلطانی کی حدت و شدت کم سے کمتر ہو تی چلی گئی۔

تلک الایام قد خلت ، آج اکیسویں صدی میں انسانیت شعورو آگاہی اور ذرائع ابلاغ و مواصلات کے ساتھ جہاں پہنچی ہے کسی جابر ذہنیت کیلئے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ پرانے نقشوں کی بحالی کا قلیل امکان بھی پیدا کروا سکے۔ اگر شیوخ کے خلاف بغاوتیں ہوں گی بھی تو وقت کا پہیہ پیچھے نہیں آگے کی طرف ہی گھومے گا، اس لئے معیاری رویہ یہ ہے کہ آپ منتخب پارلیمنٹ کی طاقت اور بالادستی پر یقین کرتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں بپا ہونے والی ترک جدوجہد کی کہانیاں دکھائیں اور مسلم ورلڈ کے سامنے اس جمہوری و آئینی انقلاب کو بطور ماڈل پیش فرمائیں جس نے ہر نوع کے جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ ہم آج اکیسویں صدی میں بس رہے ہیں، لیکن اکیسوی صدی کے تقاضے کیا ہیں؟ اس پر بہت مغالطے ہیں جو اقوام ان تقاضوں کو سمجھیں گی، وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا میں خوشحال بھی ہوں گی اور سربلند بھی رہیں گی۔ اس کے برعکس جو اقوام قدامت پسندی کے مقدس نشے میں چور اسی حجت بازی پر کمربستہ رہیں گی، غربت، جہالت اور ذلت ان کا مقدر ٹھہرے گی۔اب اس بات پر آتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے تقاضے کیاہیں؟ ان تقاضوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن کالم کے اختصار کی خاطر ہم خود کو محض ایک تقاضے تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ اولین جوہری تقاضا ہے ’’جبر کا خاتمہ‘‘ ۔جبر کسی بھی شکل، حلیے، حجاب اور نقاب میں مہذب سوسائٹی کیلئے تباہی و بربادی ہے۔ جبر پراستوار سوسائٹی بظاہر کتنی ہی ترقی کرتی دکھائی دے، اس میں دوام ہرگز نہیں ہوتا، اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے اس کے شہریوں کی حقیقی ہمدردیاں کبھی بھی اس کے اجتماعی نظم کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے حریت فکر اور آزادی اظہار کا مقابلہ کرنے کی سکت اس میں نہیں ہوتی۔ پچھلی صدیوں میں نظریہ جبر پر استوار بڑی بڑی سلطنتیں محض جبر اور طاقت کے زور پر اسی لئے چل گئیں کہ جہالت کے دوام اور ذرائع ابلاغ کے فقدان سے ان کو چیلنج کرنے والا بالمقابل شعور نہیں تھا۔ آج بھی جبر پر استوار ریاستیں مجبور ہیں کہ اپنے شہریوں کو جذباتیت و منافرت کی خوراکیں دیتی رہیں اورجہالت کو تقدس کے ساتھ جوڑتے ہوئے خوشنما بنا کر پیش کریں۔ شعور کی کرن کہیں سے پھوٹے، اس کوبجھا دیں لیکن کب تک؟ کس کے روکے سے رکا ہے سویرا؟ چلیں مان لیا وقتی طور پر آپ نے سویرا روک دیا لیکن کس قیمت پر؟ عوامی خوشیاں چھین کر،پروپیگنڈے کے زور پر شعور کا گلا گھونٹ کر، جہالت کو تقدس کا پہناوا دے کر، آپ جبر کا نظام استوار کئے رکھیں لیکن اندر سے آپ خود بھی جانتے ہیں کہ حبس اور گھٹن جتنی زیادہ ہو گی، ابررحمت بھی اسی شدت سے برسے گا۔

درویش سکول میں پڑھتا ایک چھوٹا بچہ تھا جب اس نے یو ایس ایس آر کو بمقابلہ یو ایس پڑھا اور پکار اٹھا کہ یہ سرد جنگ ہمیشہ نہیں چلے گی۔ جبر کی ریاست ایک دن دھڑام سے گرے گی۔ آج پھر یہ کہتا ہوں کہ نظریہ جبر پر استوار تمام ریاستیں اور ان سے وابستہ عقائد بالآخر اپنی موت آپ مریں گے۔ غلامی محض غیر ملکی حکمرانی کی صورت نہیں ہوتی۔ بدترین غلامی خود اپنی قوم کے ڈکٹیٹروں کی مسلط کردہ ہوتی ہے۔ آج کون ہٹلر کی ڈکٹیٹر شپ میں جرمن قوم کو آزاد قوم کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے؟ نشیمن پر اپنے جو بجلیاں گراتے ہیں، وہ غیروں سے بدتر ہوتی ہیں۔ غیروں کے خلاف اٹھنے والے تو ہر دور میں قومی ہیروز کہلائے ہیں لیکن ستم بالائے ستم یہہے کہ ان نام نہاد اپنوں کے مسلط کردہ اندرونی جبر و استبداد کے خلاف اٹھنے والے جانثاران حریت کو غداری کے طعنے اور وطن دشمنی کے پروانے بخشے جاتے ہیں ۔آج اگر عقائد خود کو اخلاقیات تک یا اخلاقی اصلاح تک محدود کر لیتے ہیں تو یہ کلی خاتمے یا تاریخ کا محض حصہ بن کر رہ جانے سے کہیں بہتر صورتحال ہو گی کیونکہ انسانی سماج یا نفسیات میں بالائی تقدس کا تصور جو آسودگی ، شانتی، سکون یا نروان بخشتا ہے اور اسکے بغیر مراقبے و ریاضت میں جو خلا پیدا ہوتا ہے، وہ محض مادی آسائشوں سے پورا نہیں ہو سکتا۔انسانی سماج اور اس کے امن و سلامتی کے سامنے عقائد کا چیلنج صرف اسی وقت درپیش ہوا ہے جب عقائد نے جائز حدود و قیود کو توڑ کر سوسائٹی کو اپنے جبری تسلط میں لینے کی کوشش کی ہے۔

تازہ ترین