• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میلہ مویشیاں کی مانند الیکشن کا میلہ بھی زوروں پر ہے۔ فرق بس صرف اتنا ہے کہ جانوروں کے میلہ میں بے شعور جانوروں کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔مالک بے زبان جانوروں کی خوبیاں چن چن کر بیان کر تے ہیں جبکہ الیکشن کے میلہ میں انسان نما سیاسی نما ئندے ہم عوام کو بے شعور سمجھ کر زمیں و آسماں کے قلابے ملاکر اپنی خوبیاں بیان کرتے ہیں لیکن چا ہیں جانوروں کا لین دین ہو یا ان انسان نما نمائندوں کی پرکھ اور انتخاب کا معاملہ ، ہم عوام ہمیشہ ہی دھو کہ کھاجا تے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم عوام واقعی بے شعور ہی ہیں کیونکہ ہم بار بار اور ہر بار ان سیاسی بازیگروں کی چال میںآ کر انہیں منتخب کرتے ہیں اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار کر ہائے ہائے چلاتے ہیں لیکن جیسے ہی الیکشن کا فیصلہ کن موقع آتا ہے ہم بے شعوروں کی طرح ماضی بھول کر ان نمائندوں کی چکنی چپڑی باتوں میںآ کر انہیں پھر منتخب کرتے ہیں۔اگر ہم میں شعور ہوتا تو کیا ہم ان کھو ٹے سکوں کا انتخاب دوبارہ کرتے؟۔کیا ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے؟کیا ہمیں ان سیاسی پارٹیوں کے منشور میں کوئی دلچسپی ہوتی؟ کیونکہ ان پارٹیوں کا منشور تو ہم بھگت چکے ہیں۔ہم نے کس کس کو نہیں آزمایا؟ ”تیر“ ہم کو کتنی ہی بار زخمی کر چکا ہے اور ابھی تو ہمار ے زخم ہرے ہیں، جگر چھلنی ہے۔کیا ہمیں تیر والوں کا منشور پڑھنے کی ضرورت ہے؟سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہمیں اندھیروں اور لالٹین کے حقیقی دور میں دھکیلنے والوں کو کیا دوبارہ آزمانے کی ضرورت ہے؟ کیا دوبارہ لالٹین والوں کو موقع دے کر ہم اپنی نسلوں کو اندھیروں میں جھونکنے کے مترادف ہوسکتے ہیں؟کس آس پر ہم ”شیر“ کو تیسرا موقع دے کر امیدکرے کہ لوڈشیڈنگ ، بد امنی ، لوٹ کھسوٹ، کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی کے سوا ہمیں کچھ اور مل سکتا ہے۔کیا سوات کے لوگ اس دور کو بھول گئے ہیں جب ”آٹے “کی جگہ ان کو ”چوکر“ مہنگے داموں بیچا گیا؟اور پورے ملک کو لوڈشیدنگ میں دھکیلا گیا۔کیا اس بار ”شیر “ پر مہر لگا کر ہم اس کی چیر پھاڑ سے بچ پائیں گے؟ کیا دو بار آزمانے کے بعد بھی ہمیں ان کا منشور جاننے کی ضرورت ہے؟ ”شیر“ والوں نے ”تیر“ کے ساتھ مل کر پانچ سال تک حکومت کے مزے لوٹے اور ایک دوسرے کے گناہوں پر پردہ ڈالتے رہے۔ لیکن حکومت کی میعاد ختم ہوتے ہی ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ کیا اب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ کون امین ہے اور کون صادق؟
اللہ اور رسول کے نام پر ووٹ لینے والوں کو بھی ہم نے آزمایا۔اس کے بدلے میں ہم سے ا یسا بدلہ لیا گیا کہ اللہ کی پناہ۔ہماری وادیِ سوات کو خون میں رنگ دیا گیا اور بارود کے ایسے ڈھیر میں تبدیل کردیاگیا جس کی بو آج بھی فضا میں موجود ہے۔ آج بھی ہم اپنی وادی میں چیک پوسٹ جیسی رکاوٹوں، تلاشی اور مشکوک کہلانے کی اذیت سے دو چارہیں۔آج بھی بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں پر بم دھماکوں، مارٹر گولوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آوازیں ہتھوڑوں کی طرح برستی ہیں اور بہت سارے تو نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں۔ کیا ان کو دوبارہ موقع دے کرہم کوئی اور خطرہ مول سکتے ہیں؟
ہم عوام دو وجوہات کی وجہ سے غلط نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ ایک ووٹ دے کر اور دوسرا ووٹ نہ دے کر۔ ووٹ کا صحیح اور سوچ سمجھ کر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے کرپٹ اور عوام دشمن نمائندے جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر ہماری زندگی اور ایمان تک کا سودا کرنے کا آسان موقع ان کو مل جاتا ہے۔ووٹ نہ دے کر بھی ہم اسی گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں اور اس طرح کرپٹ عناصر پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر کم ووٹ لے کر بھی جیت جاتے ہیں۔ہم پاکستانی عوام کا المیہ یہ ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھ کر حکومت کی نا اہلی اور کرپشن کا رونا روتے ہیں اور برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ گالیاں تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن جب حکمرانوں کو منتخب کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنی دوکان یا کاروبار دو تین گھنٹوں کے لیے بند نہیں کرسکتے ۔ الیکشن کے دن کھیل کے میدانوں میں سارا سارا دن رہ کر اور ووٹ نہ ڈال کر دراصل اپنی قسمت سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔کمپیوٹر اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہوئے ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ووٹ نہ ڈال کر کتنی بڑی غلطی کا مر تکب ہورہے ہوتے ہیں۔ ووٹ ڈالنانہ صرف قانونی بلکہ میری ناقص رائے کے مطابق ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔کیونکہ یہی حکمران اسمبلیوں میں بیٹھ کر ہمارے ایمانوں تک کا سودا کرنے کا لائسنس رکھتے ہیں۔قانون سازی ، آئین میں ردو بدل، نصاب تعلیم میں تبدیلی، اندرونی و خارجہ پالیسی اور دیگر اصلاحات بلواسطہ یا بلا واسطہ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ایسے میں ووٹ نہ ڈال کر ہم نہ صرف قانونی جرم کرتے ہیں بلکہ بر اہ راست گناہ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔
اگرچہ ماضی کے مقابلے میں آج کا پاکستان خاصا بدل چکا ہے۔انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور تعلیم نے خاصے حد تک لوگوں کو باشعور اور با ضمیر بنا دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی سالہاسال اورمسلسل کرپشن ، لوٹ کھسوٹ ، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بدامنی کے عفریت نے پاکستانی عوام کو کندن بنا دیاہے اور پشتو کے اس مقولے پر پورا اترنے کی کوشش کی ہے کہ” خدائے چہ چاتہ پیخہ کی۔ زان دے ورتہ میخہ کی“۔لیکن کب تک کوئی اس قول پر عمل پیرا رہ سکتا ہے؟ کیونکہ صبر اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔اور اب پاکستانی قوم خاص کر نئی نسل تبدیلی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتی ہے۔ظلم اور جبر کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے لیکن اب ہمارے بزرگوں کو بھی بدلنا ہوگا قوم ،قبیلے، نسل اوررشتہ داری کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کے سلسلے کو ختم کرنا ہوگا۔بڑھاپے اور زندگی کے آخری مراحل اور مرنے سے پہلے انقلابی فیصلے کرنے ہوں گے۔ساری زندگی غلط لوگوں کو ووٹ دینے کے عمل کو اب روکنا ہوگا۔خاندانی نسبت ، رشتہ داری اور ذات پات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے لئے ووٹ دینا ہوگا۔ہم مل کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنا سکتے ہیں اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم الیکشن میں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے۔
اس آرٹیکل کے ذریعے میں وطن عزیز میں رہنے والوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا الیکشن کے دن ضرور ووٹ کا حق استعمال کرے اور ووٹ دیتے وقت کھلے دل اور دماغ سے ایسے نمائندوں کو کو منتخب کرے جس سے پاکستان کی قسمت تبدیل ہو سکے اور اپنے آنے والی نسلوں کو ایک مستحکم ، خوشحال اور پرامن پاکستان دے سکیں۔ اور ہم فخر کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ ملک کی تقدیر بدلنے میں ہمارا بھی ہاتھ ہے لیکن اگر اب بھی ہم نے ووٹ کا ہتھیار استعمال نہیں کیا اور اور محب وطن قیادت کو منتخب نہیں کیا تو قیامت کے دن ہم بھی کرپٹ حکمرانوں کے سرکردہ گناہوں میں برابر کے شریک ہونگے اورآنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

یہ ووٹ امانت ہے لوگو۔ اسے سوچ سمجھ کر لوٹاؤ
یہ قرض ہے تم پر مٹی کا۔ یہ قرض تمہیں لوٹاناہے
آؤ یہ عہد کرو مل کر۔تمہیں ووٹ سے دیس بچانا ہے
اس بار الیکشن میں لوگو ۔ایسا رہبر لانا ہے
ہو اپنے وطن سے پیار جسے۔اور گیت وفا کے گاتا ہو
جو پاک وطن کی حرمت پر ۔بس واری واری جاتا ہو
کردار میں سب سے اعلیٰ ہو ۔نہ جھکنے ، بکنے والا ہو
جو اپنے وطن کے لوگو کے۔دکھ درد سمجھنے والا ہو
جو دیس کی خاطر جیتا ہو۔ اور دیس کی خاطر مرتا ہو
یہ ووٹ امانت ہے لوگو۔ اسے سوچ سمجھ کرلو ٹاؤ
تازہ ترین