• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو قدرت نے جہاں چار موسموں‘ دنیا کے طویل اور بلند ترین سرسبز و برف پوش اور معدنیات سے مالا مال پہاڑی سلسلوں‘ سطح مرتفع‘ زرعی میدانوں‘ دریائوں‘ جھیلوں‘ ساحل و صحرا سے نوازا ہے‘ انہی میں سندھ اور بلوچستان میں واقع جزائر بھی شامل ہیں جو اپنے جغرافیے اور افادیت کے لحاظ سے کثیرالمقاصد اہمیت کے حامل ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ 73برس نظرانداز رہنے والے اِن جزیروں کو سیاحتی‘ تجارتی اور صنعتی لحاظ سے دنیا کے ہم پلہ بناکر قومی اقتصادی دھارے میں شامل کیوں نہ کیا جا سکا اور آج یہ جزیرے محض ماہی گیری تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت نے تعمیراتی شعبے میں انقلاب لانے کی غرض سے ملک میں نئے شہر آباد کرنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے‘ ساحلی پٹی پر سندھ سے بلوچستان تک واقع جزیروں کی تعمیر و ترقی اور وہاں سرمایہ کاری لانے کا عزم اسی سلسلے کی کڑی ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کی غرض سے گزشتہ ماہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ہے، جو اِن جزیروں پر ہر قسم کی ترقیاتی اسکیموں اور منصوبوں کو انجام دینے کی مجاز ہوگی اور ساحل سے سمندر کے اندر 12ناٹیکل میل کا حصہ اِس ادارے کی ملکیت تصور کیا جائیگا۔ اس کا صدر دفتر کراچی میں ہوگا اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہونگے۔ ادارے کے معاملات چلانے کیلئے پانچ سے لیکر گیارہ ممبران پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جائیگا جس کا سربراہ چیئرمین ہوگا اور اس کا انتخاب پانچ سال کے لئے عمل میں لایا جائیگا۔ آرڈیننس کی رو سے اتھارٹی اِن جزائر کی زمین منتقل کرنے‘ استعمال کرنے‘ ٹیکسوں کی وصولی اور رقبوں کی فروخت کا اختیار رکھتی ہے، بظاہر اِن جزائر کو ترقی دینے اور آباد کرنے کے تناظر میں یہ حکومت کا خوش آئند پروگرام ہے لیکن اِس کے حوالے سے وفاق اور سندھ میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ سندھ حکومت کے متذکرہ آرڈیننس کے خلاف تحفظات ہیں‘ وہ سمجھتی ہے کہ وفاقی حکومت اِن جزائر پر قبضہ کر لے گی‘ اس حوالے سے پانچ اکتوبر کو بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ پیپلزپارٹی‘ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزیروں کے غیرقانونی الحاق کی مخالفت کرے گی اور ایوان میں اس پر احتجاج کیاجائیگا۔ اس کے جواب میں وفاقی وزیر علی زیدی 6جولائی کو جاری ہونیوالا وہ خط منظر عام پر لے آئے جس میں سندھ حکومت کی بعض جزیروں کے وفاق کی تحویل میں لینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی تھی لیکن بعد ازاں حکومت سندھ نے اس خط کو واپس لیتے ہوئے ان جزائر کو سندھ کی ملکیت میں رکھنے کی شرط عائد کرتے ہوئے مقامی آبادیوں اور وہاں کے لوگوں کے روزگار پر تحفظات کا اظہار کیا جس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ان جزائر پر وفاقی حکومت کی اقتصادی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو تمام حقوق دینے کا اعلان کیا۔ جمعرات کے روز وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں گورنر سندھ سے بات چیت کے دوران اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جزیرہ بنڈل کا منصوبہ مکمل ہونے پر یہ دوبئی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا لہٰذا اس منصوبے میں سندھ حکومت کو ساتھ لیکر چلیں گے اور تمام معاملات مل جل کر طے کئے جائیں گے۔ سرمایہ کاری اور روزگار کی خاطر بلاشبہ یہ جزائر نہایت پُرکشش ہیں اور اِس حوالے سے وفاقی حکومت کی سوچ نہایت مثبت ہے جبکہ سرمایہ کاری اور روزگار کی سطح بھی محدود نہیں ہے، بجائے یہ کہ آنیوالے وقت کو بھی تنازعات کی نذر کر دیا جائے۔ دونوں حکومتوں کو باہمی رضامندی سے افہام و تفہیم کے ساتھ ملک کے وسیع تر مفاد میں صنعتی‘ تجارتی‘ سیاحتی پہلوئوں سے اس منصوبے کو قابلِ عمل بنانا چاہئے۔

تازہ ترین