• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہبی معاملات میں جان بوجھ کر کی گئی یا انجانے میں ہونے والی غلطی کی قیمت معاشرے کا ہر طبقہ ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ اُس کے سبب سے بزرگ علماء تہہ خاک سلا دیے جاتے ہیں مگر پھر بھی اُس کی قیمت اور تقاضے کبھی نہیں تھمتے۔ امام شافعی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، آپ امام مالک کے شاگرد ہیں، امام احمد بن حنبل آپ کے شاگرد تھے جبکہ آپ نے امام ابو حنیفہ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد سے کوفہ میں تحصیلِ علم کیا۔ امام ابو حنیفہ کے بعد اُن کے دو شاگرد اُن کی مسند پر موجود تھے، امام محمد اور امام ابو یوسف، جب مکہ سے طلبِ علم کے لئے امام شافعی مدینہ پہنچے تو امام مالک کے درس میں حاضر ہونا شروع ہوگئے، امام مالک نے دیکھا کہ ایک نوعمر لڑکا اُن کے درس کے دوران مسلسل تنکا منہ میں ڈالتا ہے اور ہاتھ پر مارنے لگتا ہے، دورانِ درس وہ اُس کو دیکھتے رہے مگر اُس وقت نہیں ٹوکا۔ جب اُس روز کا درس مکمل ہوا تو سب طالبعلموں کو جانے کی اجازت دے دی مگر اُس نو عمر لڑکے کو روک لیا جو بعد میں امام شافعی بنا۔ اُسے اپنے پاس بلا لیا اور دریافت کیا کہ تم کون ہو، حسب نسب پوچھا، پھر بولے، اچھے خاندان کے ہو مگر درس کے آداب میں بےادبی کر رہے تھے۔ امام شافعی نے پوچھا کہ مجھ سے کیا بےادبی سرزد ہو گئی؟ امام مالک نے منہ میں مسلسل تنکا لینے اور ہاتھ پر مارنے کا ذکر کیا۔ امام شافعی نے جواب دیا کہ میرے پاس لکھنے کے لئے قلم وغیرہ نہیں ہے، منہ کے لعاب سے آپ کی بیان کردہ احادیث مبارکہ اپنے ہاتھ پر تحریر کر رہا تھا۔ امام مالک نے ہاتھ دیکھے اور کہا کہ اُن پر کہاں تحریر ہے؟ امام شافعی نے جواب دیا کہ اُن پر تو موجود نہیں رہ سکتی مگر میرے حافظے میں موجود ہے۔ اچھا تو پھر سب نہ سہی ایک حدیث ہی سنا دو مگر امام شافعی نے ایک نہیں بلکہ وہ پچیس احادیث مبارکہ سند کے ساتھ سنا دیں جو امام مالک نے اُس درس میں بیان فرمائی تھیں۔ امام مالک اپنے شاگرد کی قابلیت کو بھانپ گئے، اُس غریب الوطن کو اپنے گھر لے گئے اور جب تک امام شافعی مدینہ ٹھہرے، اپنے استاد امام مالک کے گھر ٹھہرے۔ خیال رہے کہ امام مالک نے امام شافعی کو فتویٰ دینے کی اجازت دے دی تھی جبکہ اس وقت اُن کی عمر کم و بیش 16سال تھی۔ آپ کوفہ پہنچے، مسجدِ کوفہ میں ایک شخص کی نماز میں کوتاہی کے سبب سے ایک بحث چھڑ گئی اور آپ امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد سے متعارف ہو گئے۔ امام محمد بھی آپ کے اندر کی قابلیت کو بھانپ گئے، اب امام شافعی امام محمد کے مہمان تھے اور اُن کی شاگردی میں اپنا علم بڑھا رہے تھے۔ حالاںکہ اپنے استاد امام محمد سے دورانِ درس اختلافی نقطہ نظر بھی پیش کر دیتے مگر امام محمد کے ماتھے پر شکن کبھی نہ آئی۔ امام شافعی کوفہ سے وطن واپس روانہ ہوئے تو مدینہ میں امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امام مالک کے درس میں بیٹھ گئے، گفتگو میں حصہ لیا، امام مالک پہچان گئے کہ یہ اُن کا ہونہار شاگرد شافعی ہے۔ درس ’’جرح عمد‘‘ پر ہو رہا تھا، امام مالک نے اپنی مسند چھوڑ دی اور ہاتھ پکڑ کر امام شافعی کو اپنی مسند پر بٹھا دیا کہ باقی درس اب تم دو۔

امام شافعی، امام محمد کے ساتھ ساتھ امام مالک سے بھی کچھ معاملات میں دوسری رائے رکھتے تھے اور یہ دوسری رائے رکھنا آپ کو امام مالک نے ہی سکھایا تھا کیونکہ جب خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آپ کی کتاب ’’موطا‘‘ کی فقہی آرا کو سرکاری قانون کا درجہ دے دیا جائے اور پوری امت کو اس کا پابند کر دیا جائے تو اس وقت امام مالک نے جواب میں فرمایا تھا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف علاقوں میں پہنچے تو ان سے لوگوں کو مختلف احادیث معلوم ہوئیں اور انہوں نے اپنے معتمد علیہ علماء کی تحقیق کو اختیار کرلیا تو آپ زبردستی ان کو میری رائے کا پابند نہ کریں، اس طرح زیادہ خرابی پیدا ہوگی۔امام مالک کی تو یہ رائے تھی مگر جب کم عقل کتابیں پڑھ کر عالم کہلانے لگیں تو بربادی راستہ دیکھ لیتی ہے۔ امام شافعی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب آپ مصر تشریف لے گئے تو خلقت آپ کے گرد جمع ہونے لگی۔ وہاں کے مالکی فقہ کے بزعم خود عالم اس صورتحال سے گھبرا گئے کہ اُس سے اُن کی مسندیں ویران ہونے لگ گئی تھیں۔ مصر میں فتيان بن ابی السمح ایک مالکی عالم تھا اور امام شافعی کا سخت مخالف، ایک دن امام شافعی سے کسی علمی مسئلے پر الجھ پڑا۔ معاملہ عدالت تک گیا اور فیصلہ امام شافعی کے حق میں آ گیا اور آپ کے خلاف بغض عروج پر پہنچ گیا، سازش ہونے لگی۔ ایک دن امام شافعی عشا کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے گھر کے لئے روانہ ہوئے ایک چھوٹی گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص گرز لئے نمودار ہوا اور امام شافعی کے سر پر دے مارا ، امام شافعی کو زخمی حالت میں گھر پہنچا دیا گیا اور دوسری طرف فقہ مالکی کا عالم اشہب بن عبدالعزیز سجدے میں دعا کر رہا تھا کہ اے الٰہی شافعی کو اٹھا لے ورنہ مالکی فقہ مٹ جائے گا۔ اُس نے شافعی کو اٹھانے کی دعا کی جو امام مالک کا چہیتا شاگرد تھا۔ اسی امام مالک کے ماننے والوں کے ہاتھوں تیس رجب 204ہجری کو راہی ملک بقا ہو گیا، صرف مذہبی عدم برداشت کے سبب سے اور اسی مذہبی عدم برداشت کا سامنا مسلمان ممالک اور وطن عزیز کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ امام شافعی کی داستان صرف ایک کہانی نہیں بلکہ عظیم سبق رکھتی ہے کہ ایک راستہ یہ ہے کہ امام مالک، امام محمد اور امام شافعی کے راستے پر چلا جائے کہ اختلاف کا مطلب عدم احترام یا تشدد نہیں ہوتا اور دوسرا راستہ فتيان بن ابی السمح اور اشہب بن عبدالعزیز کا ہے کہ جس میں اختلاف کی سزا صرف تشدد ہے کہ جس تشدد سے امام شافعی جیسے جدا ہو جاتے ہیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے کس کے راستے کو اختیار کرنا ہے؟

تازہ ترین