• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند ماہ سے ہماری سیاسی دنیا میں ”یوتھ“ نے کافی ہلچل مچا رکھی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں نیا نوجوان ووٹر… حاضر و موجود سے بیزار ووٹر، گھٹیا آزمودہ قیادتوں سے اوازار ووٹر جو ان سب کے کرتوتوں سے اکتا کر عمران خان کے گرد اکٹھا ہونے لگا تو باقیوں بالخصوص (ن) لیگ کے بھی کان کھڑے ہوئے۔ وہ کان جن پر کبھی جوں نہیں رینگتی تھی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ پنجاب ان کی ذاتی جاگیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور کوئی ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فرسٹ جنریشن راجاؤں کی رعونت اور اجارہ داری اپنے عروج پر تھی کہ اچانک کھلاڑی اور شکاری نے مینار پاکستان پر چودہ طبق روشن کر دیئے۔ اجارہ داری کی فصیل میں دراڑیں پڑنے لگیں تو کہرام مچ گیا۔ ہر زبان پر ”یوتھ“ کا ورد تھا سو تاجران سیاست نے جگہ جگہ ”لیپ ٹاپوں“ اور ”سولر لیمپوں“ کی دکانیں کھول دیں۔ مال مفت دل بے رحم، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کہ اسی لئے تو اقتدار سے اتنا پیار ہے کہ پورا خاندان اس کاروبار میں ملوث جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ پروٹوکول، طمطمراق، عوام کے مال پر سکیورٹی، سڑکوں پر ”قانونی قبضے“ تو اس شاپنگ کے معمولی جھونگے ٹھہرے، معاملہ صرف سولر لیمپوں اور لیپ ٹاپوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ دیگر سکیموں تک لامحدود… ”یوتھ“ کی تو جیسے لاٹری نکل آئی لیکن سب جانتے تھے کہ ہر مہربان حرکت کے پیچھے عمران خان کا خوف ہے کہ راجواڑہ ہاتھ سے نکلا جاتا ہے حالانکہ وہ تو نکل ہی چکا تھا لیکن ہاتھ پاؤں مارنا تو ہر ڈوبتے ہوئے کا جمہوری حق ہے۔ سچ یہ ہے کہ یوتھ نے جو کرنا تھا وہ الیکشن سے پہلے ہی کر چکی جس کا سادہ سا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ تقریباً سال پہلے تک جس تحریک انصاف کا کہیں ذکر تک نہ تھا، جو تحریک انصاف کسی شمار قطار میں ہی نہ تھی، آج ہر تھڑے سے ہر ڈرائنگ روم تک، ہر چوک سے ہر چوبارے تک، اس کا موازنہ و مقابلہ (ن) لیگ سے کیا جا رہا ہے اور تجربہ کار لوگ بھی ایک دوسرے سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف زیادہ سٹیپس لے گی یا (ن) لیگ؟ یہ سچوئشن ہی (ن) لیگ کی شکست فاش ہے۔ کل تک جو عمران خان ”ALSO RAN“ تھا آج ڈنکے کی چوٹ پر نواز شریف کو مباحثہ و مناظرہ کا چیلنج دے رہا ہے اور میاں صاحب پہلو بچا رہے ہیں… بہرحال اصل بات یہ کہ ”یوتھ یوتھ“ کے اس ہنگامے میں میرا ذاتی خیال ہے کہ نہ تحریک انصاف کو علم ہے کہ ”یوتھ“ کیا ہے نہ (ن) لیگ کو اندازہ ہے کہ ”یوتھ“ کس بلا کا نام ہے۔ دونوں کا قصور بھی کوئی نہیں کیونکہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستانی یوتھ کو DEFINE نہیں کر سکتی۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور الجھا ہوا معاملہ ہے۔
کون سی یوتھ؟؟؟
دیہی یوتھ یا شہری یوتھ؟
امریکن سکول اور ایچی سن والی یوتھ یا بیکن ہاؤس گرامر سکول یوتھ؟
کیڈٹ کالجز کی یوتھ یا ایم اے او کالج و اسلامیہ کالج ٹائپ یوتھ؟
لمز اور کنیرڈ کالج یوتھ یا مدرستہ البنات اور لاہور کالج یوتھ؟
سرکاری اداروں کی یوتھ یا مدرسہ یوتھ؟
مدرسہ یوتھ تو کس فرقہ اور مسلک کی یوتھ؟
چِٹی اَن پڑھ پلیوں پر بیٹھ کر سستے نشے کرنے والی یوتھ یا مختلف ہنر سیکھ کر پلمبر، میسن، ترکھان اور الیکٹریشن بننے والی یوتھ؟
قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا، ہماری ”یوتھ“ کی اتنی قسمیں ہیں کہ دو چار کالجوں میں ان کا بیان ممکن نہیں۔ ان میں سے ہر قسم کی یوتھ کی اپنی ہی دنیا اور مائنڈ سیٹ ہے۔ ان کے جذبات خیالات اور ترجیحات میں کوئی مماثلت نہیں بلکہ اس کی بھاری اکثریت مکمل طور پر متضاد سمتوں کی مسافر تو جب ہم ”یوتھ“ کی بات کرتے ہیں تو شائد نہیں جانتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور کن کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جو بھی سیاسی پارٹی سائینٹفک انداز میں سوچے اور ہوم ورک کرے گی، مستقبل میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکے گی۔
دوسری طرف مہذب دنیا ہے جہاں یوتھ کی نسبتاً بہتر اور سٹینڈرڈ قسم کی DEFINATIONS ہیں جن میں سے چند میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں مثلاً”You are young at every age if you are planning for tomorrow.“ اس ملک میں تو میچور آدمی کا کوئی ”TOMORROW“ نہیں ہے۔ ”Age is the best possible fire extinguisher for flaming youth.“ یہاں بچے بچپن میں ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں فلیمنگ یوتھ کہاں سے آئی۔ ”The worst danger that confronts the younger generation is the example set by the older generation.“ اور یہاں کی پرانی نسل ہم جیسوں پر مشتمل ہے۔ منافق بزدل موقع پرست جاہل۔”Why don,t all challengers occur when we are young and know everything.“ اس پر نوجوان نسل کو غور کرنا چاہئے۔اور یوتھ کی اس تعریف کا تو جواب ہی نہیں کہ … ”He aimed for happiness but settled for success.“
واقعی زندگی میں خوشی اورکامیابی کے درمیان تمیز کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
تازہ ترین