• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ بُری طرح جنگ ہا ر رہا تھا اور جرمنی کے جہاز دن دہاڑے لندن اور اس کے مضافات میں جب چاہتے گھس آتے اور جہاں چاہتے بم گرا کر چلے جاتے ،آخری دنوں میں قحط سالی کا سامنا قوم کو کرنا پڑرہا تھا۔کھانے پینے کی اشیاء آمد و رفت تبدیل ہونے کی وجہ سے دکانوں سے ختم ہورہی تھیں۔ہر چیز پر راشن بندی ہو رہی تھی،حتیٰ کہ بچوں کا دودھ تک راشن بندی کا شکار تھا۔پیٹرول اور گیس کے ذخائر بھی متاثر ہو چکے تھے ۔ایسے نازک موقع پر لندن کے پڑھے لکھے لوگ جن میں ڈاکٹرز،اساتذہ،انجینئرز اور دانشورشامل تھے، وفد کی شکل میں اس وقت کے وزیر اعظم چرچل سے ملے اور عوام کی مشکلات سے آگاہ کیا اور پوچھا برطانیہ کا کیا مستقبل ہے ؟ اور عوام کی مشکلات کب اور کیسے حل ہونگی۔وزیر اعظم نے بڑی بردباری سے ان کے خیالات سننے کے بعد پوچھا کیا برطانیہ میں اسکول میں بچے پڑھنے جا رہے ہیں ۔انہوں نے جواب دیا بیشک بچے تو اسکول باقاعدگی سے جا رہے ہیں ،پھر چر چل نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں انصاف مہیا کررہی ہیں ،انہوں نے کہا جی بالکل عدالتیں انصاف مہیا کر رہی ہیں ،پھر پوچھا حکومت عوام کی ہر ممکن مدد کرنے میں مخلص ہے،انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے ،آخر میں پوچھا کہ آپ کو اپنی فوج پر بھروسہ ہے ،وہ دشمنوں سے بر سرپیکار ہے، انہوں نے سب کا جواب ہاں میں دیا۔ ونسٹن چرچل نے جیب سے سگار نکال کر سلگایا اور کش لے کر کہا جب تک برطانیہ میں انصاف ملتا رہے گا ،بچے اسکول جاتے رہیں گے،حکومت عوام سے مخلص ہو کر ان کے درد میں شامل رہے گی اور افواج اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے دیتی رہیں گی۔ برطانیہ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔قوم نے دیکھا چندہی ہفتوں میں پیچھے ہٹنے والی فوج نے اپنی برتری منوا کر جرمنی کو ہرا دیاا ور جارح جنرل ہٹلر نے ہتھیارڈال کر خود کشی کر لی ،برطانیہ فتح یاب ہو گیااور برطانیہ کی جنگ بندی کے بعد اگلے ہی الیکشن میں چرچل کی پارٹی بُری طرح ہار گئی اور وزیر اعظم چرچل 10ڈائون اسٹریٹ سے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔

آج ہر شخص پاکستان میں جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے ،خواہ وہ تاجر و صنعتکار ہو،ملازمت پیشہ ہو یاکسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو بے چینی اور تذبذب کا شکار ہے،غیر محفوظ ہے،ہر کسی سے پوچھ رہا ہے،پا کستان کا مستقبل کیا ہے ؟ غربت منہ پھاڑے ہر ایک کی طرف بڑھ رہی ہے ۔اس 2سالہ دور میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ہر چیز پر مافیا قابض ہو چکی ،اب تو وزراء کے بھی کرپشن میں ملوث ہو نے کی خبریں آ رہی ہیں ۔دیگر جماعتوں کے افراد جو پی ٹی آئی کی چھتری کے تلے اپنے گناہ نیب سے دھلوا چکے ہیں ۔چینی ،آٹا ،پیٹرول مافیا بھی پی ٹی آئی کی وجہ سے اربوں کے گھپلے کر چکے ہیں ۔آج بڑے آرام سے دندناتے پھر رہے ہیں ،کچھ پاکستان سے باہر جا کر علاج کے بہانے وزیر اعظم کی پہنچ سے دور جا چکے ہیں ۔انصاف کا یہ حال ہے صرف حزب اختلاف کی حد تک ہے ،نیب ہر ایک پر ہاتھ ڈال چکا ہے۔مگر ایک ٹکہ بھی وصول نہیں کر سکا ،ایک طرف بارشوں نے معیشت اوردوسری طرف شہروں ،گائوں کی سڑکیں ،بازار ، منڈیاں اجاڑ کر رکھ دی ہیں ۔ہر صوبے کا بُرا حال ہے ،رہی سہی کسر کورونا وائرس نے گزشتہ چھ،سات ماہ سے پوری کر کے قوم کو ادھیڑ ڈالا ہے۔صنعتکارمسلسل مہنگی بجلی،گیس اور پیٹرول کی وجہ سے پریشان ہو کر اپنے اپنے کاروبار سمیٹ رہے ہیں ۔اسکول کے بچے تعلیم سے دور کر دئیے گئے ہیں ، کوروناکی آڑ میں حکومت اُن سے کھلواڑ کر رہی ہے،قدرت اگر پاکستان پر مہربان نہ ہوتی تو شاید بھارت سے بھی بُرا حشر ہمارا ہوتا ۔ اب حزب اختلاف نے بھی تنگ آکر کروٹ لے لی ہے۔دیکھتے ہیں کس کے اشاروں پر وہ اکٹھے ہو کر عمران خان سے دو دوہاتھ کر نے کھڑے ہو ئے ہیں اور جلسہ جلوس کی آڑ میں کونسا کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں ۔وزیر اعظم بار بار کہہ رہے ہیں،وہ این آر او نہیں دینگے تبدیلی تنزلی میں تبدیل ہو رہی ہے ۔معیشت اور کتنی نیچے جائے گی ،کسی وزیر مشیر ،صدر اور خود وزیر اعظم کو نہیں معلوم۔ اسٹاک ایکسچینج پھر نیچے کی طرف اور سونا ،ڈالر اوپر کی طرف تیزی سے جا رہا ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے کارندے حکومتی عہدیدار بن کر قوم کا خون چوس رہے ہیں ۔کے الیکٹرک کا ظلم قوم الگ سہہ رہی ہے ، اب تو اس کاسابق سربراہ اُن کا مشیر لگ گیا ہے ،رہی سہی کسر اب وہ نکالے گا۔یوٹرن کا بھی یو ٹرن ہو چکا ہے۔ہر صبح ایک نئی کہانی سننے کو مل رہی ہے ،خود ان کے وزراء عملی طور پر نا اہل ثابت ہو چکے ہیں اور صرف نیب سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور وزیر اعظم کو Missguideبھی کرتے ہیں ۔ابھی کراچی کے جزائرکا معاملہ وفاق نے اُٹھایا سندھ حکومت جو 1100ارب کا پیکیج کھانے کی تیاری کر کے شور مچا رہی تھی،اس کو بھول گئی اور سمندری جزائر پر اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہے۔اس معاملہ کی سنگینی کو اسٹیبلشمنٹ بھی خاموشی سے دیکھ رہی ہے ، کراچی سے صرف وسائل کی حد تک غرض ہے خواہ مرکز ہو یا صوبائی حکومت، کوئی کراچی سے مخلص نظر نہیں آتا۔مسلم لیگ (ن)نے پنجاب کو خوشحال بھی کراچی کے ٹیکسوں سے کیا ،اس لئے اس کا ووٹ بینک ابھی تک بر قرار ہے۔سندھ میں بھٹو کارڈ ابھی تک چل رہا ہے۔پاکستان کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں ہے۔

تازہ ترین