• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان، اپوزیشن، وزارت خارجہ و وزارت اطلاعات آئی ایس پی آر اور پاکستان کے ان تھینک ٹینکس کی فوری توجہ مبذول ہے کہ وہ داخلی اور عالمی خارجی امور پر حالات حاضرہ کے شہرہ آفاق امریکی بائی منتھلی (دو ماہی) میگزین’’فارن پالیسی‘‘ کی حالیہ اشاعت میں بھارت اور داعش کے دہشت گردی کیلئے گٹھ جوڑ کے تہلکہ خیز انکشاف پر جنگی بنیادپر اپنی قومی ذمہ داری قبول کریں۔کسی بھی صورت ملکی پیچیدہ حالات حاضرہ کے گنجلک ہونے کو، بھارت کا چہرہ مکمل حد تک بے نقاب ہونے کے (عالمی سطح پر) بعد پاکستان کے سفارتی اور مطلوب ابلاغی کاوشوں کے فالو اپ میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ لازم ہے کہ اب قوم سمجھے اور دنیا کو سمجھائے کہ پاکستان کے ساتھ گزشتہ دو اڑھائی عشروں میں بڑا ستم ہوا۔ ہماری بے گناہ و معصوم مملکت پر ہی نہیں ....... جارحیت کے خلاف عالمی عظیم کردار کی ادائیگی کے بعد دہشت گردی کے تابڑ توڑ حملے ہوئے جس میں ہمارے ڈیڑھ لاکھ سے بھی زائد معصوم شہری، فوجی اور سول سکیورٹی کے اداروں کے افسران اور سولجرز اور گارڈز شہید ہوئے۔ ایک سو بلین ڈالر کا اقتصادی نقصان ہوا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور داخلی کاروبار کا ماحول بری طرح متاثر ہوتا رہا۔ بہت بڑا ستم یہ ہوا کہ ابھی ہم 70کے عشرے کے اختتام پر ہمسایہ افغانستان پر کٹھ پتلی حکومت کے تسلط کے بعد آنجہانی سوویت یونین کی براہ راست یلغار پر اپنی سلامتی کے ایک بڑے چیلنج سے دس سال تک نپٹنے کے بعدسانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ ایک نئے چیلنج سے دو چار کر دیئے گئے۔ ہم نے سوویت جارحیت کیخلاف واضح پوزیشن لی کہ ’’ہم افغانستان پر روسی جارحیت کے خلاف افغان عوام کے ساتھ ہیں‘‘ لیکن پھر ’’آزاد دنیا‘‘ کے طاقتور ممالک نے اپنے موجود اور دوررس مفادات پر ہمیں ’’افغانستان سے سوویت جارجیت کے خاتمے کی عالمی کاوشوں کا بیس کیمپ بنا دیا۔ پاکستان کی ممکنہ حد تک معاونت اور بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کی مشترکہ کاوش نے ایک ایسی صورت پیدا کی کہ کریملن کی مسلسل جارحیت سے افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنا ہی محال نہ ہوا خود روسی کشور کشائی زمین بوس ہوگئی۔ اس کے اطرافی اثرات کو بھگتنے کیلئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ان میں ایک بڑا اثر روسی افواج کے انخلا کے بعد مسلم ممالک سے آئے ہوئے اپنی آمر حکومتوں سے بیزار وہ جہادی تھے،جنہوں نے افغانیوں کے ساتھ جہاد میں ان سے بھی بڑھ کر اور تسلسل سے حصہ لیا، یہ اپنے ملکوں کی حکومتی اجازت کے بغیر امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل اشیرباد سے افغان جہاد میں شریک ہوئے اور مغربی حکمران، میڈیا اور عوام ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ ’’مجاہدین‘‘ ان کے صحافی اور سیاسی لٹریچر میں ایک محترم و مقدم لفظ کے طور پر شامل ہوا۔ یہ روسی افواج کے انخلا پر اپنے ملکوں میں تو نہ گئے پاکستان کے آزاد منش قبائلی علاقوں، جس کی خود مختاری اور من کی آزادی کو برطانیہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، نے مسلم ممالک کو اپنی قبائلی روایت کے مطابق ان مجاہدین کو مہمان ہی نہیں بنایا بلکہ ساتھ بسایا اور ان کی شادیاں یہاں ہونے لگیں۔ ان میں سے مغربی میڈیا اور تھینک ٹینکس، فلسطین اور کشمیر جیسے سلگتے مسائل کے حوالے سے شعوری طور پر پریشان ہونے لگے کہ وہ چارجڈ مجاہدین کی نفسیات اور دینی فطرت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ریاست پاکستان کیلئے افغان جہاد سے دس سال تک چارجڈ رہنے والے ان مجاہدین کو مطلوب تقاضوں کے مطابق مینج کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ خود پاکستان کی فوج اور متعلقہ اداروں نے جتنی جرأت اور ذہانت سے افغان جہاد کو مینج کیا تھا وہ بھی بھارت کیلئے ’’جدید سیکولر جمہوریہ‘‘اور لبرل ملک کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے امریکہ اور یورپی اداروں، حکومتوں اور سیاست دانوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ بن گیا۔ سو پہلے ’’اسلامی فنڈا مینٹلزم‘‘ کاہوا کھڑا کیا گیا ، پھر انہیں بتدریج پروپیگنڈے کے بعد شدت پسند، انتہا پسند کے ٹائٹلز دیئے گئے۔ جبکہ ان مجاہدین میں سے کچھ نے فلسطین اور کشمیر کی حمایت میں اپنے کھلے ارادوں کا اظہار کرناشروع کردیا۔ جبکہ امریکی اور مغربی و یورپی ممالک کابل میں پاکستان دوست امکانی حکومت کے قیام پر پہلے محتاط اور پھر مخالف ہی ہوگئے تو ماضی قریب والے ’’افغان جہاد کے بیس کیمپ‘‘ سے دوری پیدا ہونے لگی۔ ادھر کشمیریوں نے نہ ختم ہونے والی انتفادہ طرز کی تحریک حصول حق خودارادیت کا 80کی دہائی کے اواخر میں

آغا زکی تو اسلامی بنیاد پرستوں اور پاکستان پر بھارتی الزام کی دبی دبی اور پھر کھلی تائید ہونے لگی۔ اب انہیں الزامات سے ایک آڑ مل گئی۔ ایسے کہ پاکستان کی ثابت شدہ بڑھتی کیپسٹی اور ایٹمی قوت بن جانے کے دھڑکے کے ساتھ ساتھ انہیں ’’پاکستان کو پہلے تو دہشتگردی کو نظر انداز کرنے والے ملک‘‘ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور پھر بھارت کے پاکستان پر کشمیر میں دہشت گرد بھیجنے کے الزامات کی تائید کا موقع مل گیا۔ نئی دہلی نے اس ساری صورتحال سے جارحانہ سفارتی انداز میں فائدہ اٹھانے کا پلان بنایا۔ یہ بھارت کیلئے ’’ٹو ان ون گیم‘‘ تھی۔ ایک طرف پاکستان پر دہشتگردی کے بے بنیاد الزامات کو امریکہ اور یورپ کی پہلے سے محتاط اور پھر بڑھتی تائید سے مقبوضہ کشمیر میں بے قابو ہوتی پرامن تحریک کو ’’پاکستان کی شرارت‘‘ کے طور پر دنیا سے منوایا جانے لگا دوسرے اسلام آباد ، جس نے افغانستان سے روسی جارحیت کے خاتمے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر مسلط کمیونسٹ ایمپائر کے خاتمے میں بلواسطہ نتیجہ خیز کردار ادا کیا، اس کا یہ عالمی امیج ختم کرکے دہشتگردوں کا معاون ملک ثابت کیا تاکہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ہونے کی جو یقینی پیش رفت ہو چکی ہے، عالمی دبائو سے و ہ ثابت ہونے کی نوبت نہ آئے (جاری ہے)

تازہ ترین