• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چارلس ڈارون کو ایک دفعہ ایک بہت بڑے مخمصے نے آلیا تھا۔یہ مخمصہ بہت مشہور ہوا ۔بعد ازاں اسے ڈارون مخمصہ(Darwin Dilemma) کا نام دیا گیا ۔

وہ مخمصہ یہ تھا کہ ارتقا کے تحت ایک مخصوص رفتار سے جانداروں کی نئی نئی سپیشیز جنم لیتی ہیں ۔ فاسلز کا جائزہ لیتے ہوئے ، ڈارون ایک دور سے گزرا ، جسے کیمبرین دور کہا جاتاہے ۔ اس دور میں جاندار انواع کئی گنا زیادہ رفتار بلکہ ایک دھماکے سے پھیلتی چلی گئی تھیں۔

اسے cambrian explosionبھی کہا جاتا ہے ۔یہ دو کروڑ سال کا عرصہ تھا۔اس دوران سمندروں کا پانی براعظموں پہ چڑھ آیا تھا اور فضا میں آکسیجن بھی بڑھ گئی تھی ۔ڈارون کو اس کی وجہ سمجھ نہ آرہی تھی ۔

مخمصہ کیا ہوتاہے ۔ بہت بڑا تضاد، دو متضاد حقیقتیں اور دونوں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئیں۔ ان میں سے آپ ایک چن سکتے ہیں ، دونوں کو نہیں۔ان میں سے ایک درست ہو سکتی ہے ، دونوں نہیں لیکن دیکھنے والے کو دونوں درست نظر آتی ہیں ۔ آج قوم کا حال تو یہ ہے ہی ، آپس کی بات ہے کہ وزیرِ اعظم کا حال بھی یہی ہے ۔

پچھلے دو عشروں سے کپتان کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی ؟ یہ کہ حکومت اس کے سپرد کر دی جائے ، وہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا ۔گزشتہ دو سال سے اب حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے لیکن اب وہ مخمصے کا شکار ہے ۔ 2018ء میں تحریکِ انصاف کی حکومت بنی تو پی ٹی آئی کے کارکن دن میں دو دفعہ یہ جشن منایا کرتے کہ کپتان دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح بدعنوان نہیں ۔ 

اسے پیسے کی کوئی ہوس نہیں اوریہ تو اپوزیشن لیڈر ہیں ، جو بدعنوان ہیں۔ 2011ء سے آج تک کپتان ذاتی طور پر بھی روزانہ کی بنیاد پر یہ ثابت کرتا آرہا ہے کہ زرداری اور شریف خاندان کرپٹ ہیں ۔ 

عوام بھی دل و جان سے یہ بات مان چکے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں کرپٹوں کے عہد میں عوام کا پیٹ خالی تھا ۔آج ایماندار کپتان کی حکومت میں بھی انہیں چاند روٹی جیسا دکھائی دے رہا ہے اور بھوکے کا واحد عشق صرف اور صرف روٹی ہوتا ہے ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ حریفوں بالخصوص نواز شریف کے خلاف کپتان کا رویہ روز بروز جارحانہ کیوں ہو تا جا رہا ہے ؟ کیوں وہ روز عوام کو یاد دلاتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کرپٹ ہیں ۔ چینی ، آٹے اور ادویات سمیت ہر میدان میں پی ٹی آئی حکومت عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئی ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت بنی توکل ملکی قرض تیس ہزار ارب روپے تھا۔ دو سال میں اس قرض میں گیارہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ 

عمران خان جو حریفوں بالخصوص نواز شریف پہ روز دھواں دار تبرہ کرتے ہیں ، اس کی وجہ بڑی شدید ناکامی کی فرسٹریشن ہے ۔ ایک عمران خان وہ تھا، جس نے چوہدری برادران کو پنجاب سونپنے کے پرویز مشرف کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فوجی حکمران کے ماتحت ایک کمز ور وزیرِ اعظم بننے سے انکار کر دیا تھا۔ 

آج ایک عمران خان وہ ہے ، جو سرنڈر کر چکا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر بیس کروڑ عوام روزانہ سڑکوں پہ نکل کر سو سو دفعہ بھی عمران خان کے پیچھے پیچھے یہ نعرہ لگاتے رہیں کہ شریف اور زرداری کرپٹ ہیں تو بھی پیٹ تو خالی کا خالی ہے ۔ یہ خالی پیٹ ہے عمران مخمصہ (Captain's Dilemma)۔

صرف وزیرِ اعظم ہی نہیں ،آج پاکستانی سیاست کے تمام فریق اپنے اپنے مخمصے کا شکار ہیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن ، مریم نواز ، زرداری اور اسفند یار ولی نہایت آسانی سے موجودہ حکومت کو نالائق بلکہ نکمی ثابت کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حکومت گرا نہیں سکتے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ، نون لیگ ، اے این پی اور مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت ساری اپوزیشن پارٹیز پچھلے دو عشروں میں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں فرما چکیں ۔ 

ان ادوار میں قرضوں میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی ، بجٹ خسارہ بڑھتا رہا، کرپشن کا بازار گرم رہا ۔گزشتہ دس سال مرکزمیں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا پانچ پانچ سالہ دورِ اقتدار اس قدر افسوسناک تھا کہ اب پی ٹی آئی حکومت کی تمام تر حماقتوں اور ناکامیوں کے باوجود ان کے بلانے پر لوگ باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں ۔ وہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت کسی اپوزیشن پارٹی کو چارہ گر ماننے پہ ہرگز آمادہ نہیں۔

نواز شریف نے جب نعرہ لگایا کہ مجھے کیوں نکالا اور اتفاق سے اس وقت ان کا گلا بھی خراب تھا تو عوام کی طرف سے اس نعرے کے جواب میں صرف ہنسنے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ کوئی 2013ء سے پہلے نواز شریف کو نا اہل ، ملزم اور اشتہاری قرار دے کر دکھاتا۔ اصل میں جس چیز نے ان کی سزا پرعمل درآمد ممکن بنایا ، وہ ہے پانچ سالہ ناکام اقتدار۔ 

نواز شریف کی طرف سے کمزور ’’کیوں نکالا ‘‘ مہم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کا یہ تاثر ہی ختم ہو گیا کہ وہ عوامی سمندر کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی پوری کوشش کی تھی نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے کی ۔ نہ کر سکا لیکن نواز شریف کے اپنے پانچ سالہ دور نے بالآخر انہیں نکال باہر کیا ۔زرداری صاحب کو بھی بالآخر باہر ہونا ہے۔

فوج کا اپنا مخمصہ ہے ۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ناخدا جب کشتی کو ڈبونے پر تلا ہو تو مسافر خاموش تو نہیں بیٹھے رہیں گے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ فوج کی پشت پناہی سے کپتان حکمران بنا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عمران خان کو فوج نے 2013ء میں کیوں نہ وزیرِ اعظم بنا دیا۔ 

پرویز مشرف جب 2008ء میں نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنا چاہتا تھا تو ان کے تحریری معاہدے کے باوجود کیوں ایسا نہ کر سکا؟ حالات کا ایک دھارا ہوتاہے ، دوسروں کی طرح فوج کو بھی جسے ملحوظ رکھنا ہوتاہے ۔ باقی پارٹیاں باری باری حکومت کر کے ناکام ہو جائیں۔

نسبتاً بہتر عوامی تاثر والا لیڈر اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت بلکہ سپردگی کا ڈول ڈالے تو عسکری قیادت اسے کیا کہے ۔فوج کیوں نہ چاہے گی کہ اس سے بہتر تعلقات کا آرزومند اقتدار میں آئے؟ویسے اسٹیبلشمنٹ بھی اب حیران ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ 

خود حکومت کر کے دیکھ لی ۔ مفاہمت کے خواہشمند سیاسی لیڈروں کی سرپرستی کر کے دیکھ لی۔ایسالگتاہے کہ سب ناکام ہو گئے ۔ اب ہوگا کیا ؟ کوئی شک نہیں کہ حالات خراب ہیں لیکن کوئی نہ کوئی حل ہے ضرور،لیکن کیا؟ یہ پاکستانی قوم کو کھوجنا ہوگا!

تازہ ترین