• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جمہوریت ہوں

بہتر ہوتا کہ جمہوریت بول اٹھتی کہ میں جمہوریت ہوں مگر مجھے اس ملک میں کبھی نافذ نہیں ہونے دیا گیا۔ چلو وزیراعظم ہی جمہوریت بن گئے، یہ تو قوم کے لئے بڑا اچھا شگون ہے، کہتے ہیں کہ جب منصور نے اناالحق کہا تھا تو اس وقت کے صوفیا کرام نے ریمارکس دیئے تھے کہ اور تو سب ٹھیک ہے بشرطیکہ منصور اپنے دعوے میں لفظ ’’مَیں‘‘ ہٹا دیتے، خان صاحب کو بھی ہم مشورہ دیں گے کہ وہ ’’میں جمہوریت ہوں‘‘ میں سے لفظ ’’مَیں‘‘ حذف فرما دیں تو جمہوریت شخصی تاثر سے پاک ہو جائے گی۔ اسی طرح اپوزیشن اگر ڈاکو ہے تو ثابت کر کے پکڑیں یوں براہ راست کسی کو چور ڈاکو کہنا چیف ایگزیکٹو کی شان کے خلاف ہے، جیسے پٹھانوں کے ہاں حضرت علی اور حضرت عمر جیسے نام بھی رکھے جاتے ہیں، عمران خان نے یکدم ایک ہی سانس میں کہہ دیا میں جمہوریت ہوں ایسی شخصی جمہوریت کو بھلا کون مانے گا؟، البتہ جمہوری آمریت جنم لے سکتی ہے، اس لئے لازم ہے کہ وہ جمہوریت کو فروغ دیں تاکہ وہ جگہ جگہ دکھائی بھی دے۔ انسان کا شیطان سے بھی بڑا دشمن ’’مَیں‘‘ ہے، اسے کچلنا چاہئے ’’فیر ستے ای خیراں‘‘۔ ہم کوئی عمرانیات کے مسائل بیان نہیں کر رہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ عمران نام کے افراد کامیاب ہوتے ہیں لہٰذا خان صاحب اپنے مبارک نام عمران خان تک ہی رہیں، جمہوریت خان نہ بنیں کیونکہ انہوں نے اس کے شروع میں ’’میں‘‘ لگا دیا ہے، اس طرح کامیابی ان سے جان چھڑا لے گی۔ پانچ حلقوں سے کامیاب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ کوئی سراپا جمہوریت بن جائے۔ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے،اسے یہ نہ کہیں ’’ تینوں لے کے جانا، اے میانوالی‘‘۔

٭٭٭٭

جنسی زیادتیوں کی فراوانی

یہ تو فقط ایک خبر ہے جو دوسری بار واقع ہو رہی ہے کہ چار سدہ میں جنسی درندگی کے بعد اڑھائی سالہ زینب کو بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ صرف مقام میں تبدیلی آئی وگرنہ یہ ایک ہی زینب ہے جو بار بار جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے، نام اور جائے وقوعہ میں تبدیلی آ سکتی ہے مگر فعل بد وہی ہے جس کے مرتکب کو ہم نشانِ عبرت نہیں بنا سکے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے، یہاں ہو یا پنجاب میں دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی ’’ایک‘‘ نمبر حکومت ہے۔ ہم مزید کیا کہہ سکتے ہیں جب کچھ کر نہیں سکتے؟ درندگی پر مٹی پائو فارمولا کب تک چلے گا، کیا پاکستان کے غیرتمند عوام کے پھیپھڑوں میں ہوا موجود نہیں؟ اگر اس ملک میں اتنی بیداری ہوتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج ہوتا تو کوئی زینب، پہلی زینب کے بعد جنسی درندگی کا شکار نہ ہوتی، جب ہر گھر میں زینب ہے تو ہر گھر کیوں خاموش ہے اور بھی گناہ ہیں کرپشن کے سوا، ان کا بھی سد باب اس طرح کیا جائے کہ روح فرسا جنسی زیادتیاں ختم ہوں، اور معیشت و اخلاق میں بہتری آئے، ہر نئے سورج کے ساتھ مہنگائی کی لو تیز ہو جاتی ہے، کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟ ہمارے ہاں بعض ڈراموں میں بھی ایسا مواد یا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو جنسی زیادتی کا سبب بنتے ہیں، زیادہ بولڈ ڈرامے بھی کام بگاڑ رہے ہیں، اچھا ہوا کہ ہمارے بار بار واویلا کرنے پر حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی، اس کی ہم تحسین کرتے ہیں مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، ناقابل بیان جرموں کی کھلے عام عبرتناک سزا دینے کے لئے قانون سازی کرنا ہو گی ورنہ یہ درندگیاں اس ملک کو جنگل بنا دیں گی۔

٭٭٭٭

صحافت آزاد بھی ہے پابجولاں بھی؟

پسندیدہ صحافت آزاد اور جو پسند نہیں اس کے پائوں میں بیڑیاں، آخر ایسا کیوں؟ میرِ صحافت میر شکیل الرحمٰن کو کیا اس لئے آزاد نہیں کیا جا رہا کہ آج کے ناگفتہ بہ حالات میں بھی پاکستان کےسب سے بڑے میڈیا ہائوسز میں جنگ و جیو کا شملہ بلند ہے، قصور تو بس اتنا ہے کہ یہ ادارہ کچھ چھپاتا نہیں، اور اس کی خبر کو کوئی جھٹلاتا نہیں، میر صاحب کو پابندِ سلاسل کرنے سے صحافت کو قید نہیں کیا جا سکتا، یہ 34سال پرانا کیس ہے یا 34 سالہ پرانا تعصب؟ آخر کنٹینر پر دی گئی دھمکیوں کو کیوں عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے؟ہم جنگ کے صفحات پر جو کچھ لکھ رہے ہیں کہیں اور ہوتے تو بھی یہی کچھ تحریر کرتے، کہ حق گوئی و بیباکی زمان و مکان کی پابند نہیں ہوتی، ہماری ایک تجویز ہے کہ میڈیا سانجھا ہے وہ یک آواز ہو کر آگے آئے، میر صاحب کو چھڑانے کی مہم چلائے، آداب و لوازمات صحافت کو نبھائے ورنہ آج بجلیاں کسی اور کے خرمن کا رخ بھی کر سکتی ہیں، میڈیا کے انتشار کا بے جا فائدہ کسی کو نہ اٹھانے دیا جائے، اس طرح تو 22کروڑ پاکستانیوں کا معلومات تک رسائی کا حق چھن جائے گا، ہمارا اب بھی حکومتِ وقت کو صائب مشورہ ہے کہ چونتیس سالہ پرانی اس قبر کو نہ اکھاڑے جس میں سرے سے کوئی مردہ ہی موجود نہیں، باعزت رہائی سے حکمرانوں کو عزت ملے گی۔ اگر حکومت بزعم خویش سب اچھا کر رہی ہے تو جیو جنگ گروپ سب اچھا کی تصویر چھپائے گا نہیں اور اب بھی یہ صحافتی ادارہ ایسا ہی کر رہا ہے اچھے کاموں کی اچھی تصویر دکھاتا رہتا ہے اور اصلاحی تنقید میں بھی بخل سے کام نہیں لیتا، مقدمہ چلنے اور جزا و سزا سے پہلے یہ گرفتاری ہر پاکستان کی سمجھ سے بالا ہے۔

٭٭٭٭

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

....Oفیاض چوہان:فضل الرحمٰن نے ہمیشہ اصولی نہیں وصولی کی سیاست کی ہے۔

یہاں کوئی سولی کی سیاست نہیں کرتا۔

....Oتجزیہ کار:حکومت کی کارکردگی اچھی ہو تو حزب اختلاف کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی ۔پر کتھوں؟

....Oن لیگ کے جلسے محدود کرنے کا فیصلہ

میں جمہوریت ہوں کا مطلب سمجھ میں آ گیا۔

تازہ ترین