• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بریڈلا ہال کے بارے میں ہمیں سابق ایم پی اے (ن لیگ) شیخ علائو الدین کا فون آیا کہ انہوں نے جب اس تاریخی ہال کے بارے میں پڑھا تو انہیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اس تاریخی ہال کے بارے میں جانتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو انہوں نے اس ہال کی تزئین و آرائش کے لئے بہت کوشش کی تھی مگر ایک سابق چیئرمین متروکہ اوقاف بورڈ نے اتنی رکاوٹیں ڈالیں کہ وہ بددل ہو گئے اور پھر اس ہال کی مرمت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

لاہور میں اب ایک ایسا طبقہ اور ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو لاہور شہر کی قدیم عمارتوں کو گرانے کے درپے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پرانی عمارتوںکا ملبہ فروخت کر کے کمائی کی جائے اور پھر نئی عمارتیں بنا کر ان سے بھی کمائی کی جائے ۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور میو اسپتال کے بالکل قریب نیوٹن ہال ہے۔ یہ بڑی خوبصورت اور انتہائی ہوادار عمارت ہے۔ لاہور میں انگریزوں کی تعمیر کردہ چند ایک عمارتیں ایسی رہ گئی ہیں جن کی چھتیں لکڑی کےشہتیروںکی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لاہور کے تمام مکانات اور قدیم کوٹھیوں کی چھتیں لکڑی کے شہتیروںکی ہوتی تھیں اور یہ کوٹھیاں چونے سے تعمیر کی جاتی تھیں۔ ان قدیم عمارتوں میں جون، جولائی کے گرم ترین مہینوں میں بھی گرمی محسوس نہیں ہوتی تھی، چھتوں پر مٹی ڈالی جاتی ہے جس سے عمارت محفوظ اور ٹھنڈی رہتی تھی۔ نیوٹن ہال جہاں پر سو برس تک نرسوں کا ہوسٹل رہا ،یہاں کبھی ایف سی کالج کا ہوسٹل بھی رہا ، آج اس تاریخی عمارت کو دانستہ تباہ کیا جا رہا ہے۔ بارشوں میں کئی کئی دن اس کی چھتوں پر پانی کھڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بارش کے دنوں میں چھت پر دلدل سی بن جاتی ہے۔ جب ہم بارش میں اس کی چھت پر گئے تو ہمارے اور ہمارے فوٹو گرافر عرفان نجمی کے پائوں اس میں دھنس گئے۔ بڑی خوبصورت عمارت ہے۔ میو اسپتال کے ایک سابق ایم ایس کی پوری کوشش تھی کہ اس قدیم عمارت کو گرا دیا جائے ،وہ تو ہمارے ایک فیچر کی وجہ سے بچ گئی اور معروف ماہر تعمیرات نیر علی دادا اور لاہور ہیرٹیج سوسائٹی نے اس کو بچانے کا مطالبہ کر دیا۔اس کے بعد سے آج تک خاموشی ہے۔ اس تاریخی عمارت میں میڈیکل میوزیم بنایا جانا چاہئے ،جہاں لاہور کی طبی تاریخ کو محفوظ کیا جائے۔ اس خوبصورت عمارت کی آج بھی اگر تھوڑی سی مرمت کر دی جائے تو مزید سو برس تک کام دے سکتی ہے مگر اس تاریخی عمارت کو گرانے، اس کا ملبہ فروخت کرنے اور نئی عمارت بنانے میں جو کمائی ہو گی، اس کا اندازہ تو چور مافیا لگا چکا ہے۔ اس سے قبل میو اسپتال کے ایک سابق ایم ایس نے اسپتال کے اندر فیملی وارڈز، ڈاکٹرز ہوسٹل اور کئی قدیم عمارات گرا دی تھیں۔ کسی بھی عمارت کو خطرناک قرار دے کر گرانا کون سا مشکل کام ہے۔ ہم نے تین برس قبل جب نیوٹن ہال کو دیکھا تھا تو اس کی حالت بہت اچھی تھی بلکہ کئی کمروں میں نرسیں رہائش پذیر تھیں۔ چھت پر جان بوجھ کر بارش کے پانی کو کھڑا رہنے دیاجاتا تھا۔ عزیز قارئین! آپ یقین کریں کہ صرف آنے والے چند برسوں میں کئی قدیم خوبصورت عمارتوں کو گرا دیا جائے گا۔ اس شہر میں ایچیسن کالج، این سی اے (میو اسکول آف آرٹس) اورگورنمنٹ کالج کی عمارتیں اس سے بھی زیادہ قدیم ہیں مگر ان عمارتوں کی حالت ایسی ہے کہ لگتا ہے ابھی تعمیر کی گئی ہوں۔ شہر کا حسن قدیم عمارتیں ہوتی ہیں۔ انگریزوں نے ایسی عمارتیں تعمیر کی تھیں کہ ان میں گرمی کا احساس نہ ہو۔ اس زمانے میں اے سی نہیں تھا ،آج بھی ایسی عمارتیں تعمیر ہو سکتی ہیں۔

نیا لاہور بسانے والے کاش اس میں ایسی تعمیرات کریں جو قدیم شہر کی عکاسی کرتی ہوں مگر وہاں تو ٹھیکے لئے جائیں گے، مال کمایا جائے گا۔ انگریز کی تعمیر کردہ کوئی عمارت بھی ڈیڑھ سو برس سے کم نہیں۔ آپ کانونٹ آف جیسز اینڈمیری اسکول میں چلے جائیں لگتا ہے کہ یہ عمارت ابھی تعمیر ہوئی ہے۔ ہماری حکومتوں نے جان بوجھ کر انگریزوں کی تعمیرکردہ قدیم عمارتوں کی بروقت مرمت اور تزئین و آرائش نہیں کی۔

لاہور کے تمام گرجا گھر (چرچ) ڈیڑھ سو برس سے زیادہ قدیم ہیں۔ آپ ان کو جا کر دیکھیں ایسا لگتا ہے کہ ابھی دو چار برس قبل تعمیر کئے گئے ہیں ۔کبھی لاہور کے اندر بے شمارقدیم عمارتیںتھیں اور انتہائی خوبصورت۔ انارکلی کے اندر کئی مکانات اور ہوٹل تھے۔ نظام ہوٹل، دہلی مسلم ہوٹل، بیلی رام کی بلڈنگ، کالج شوز، شیخ عنایت اللہ اینڈ سنز، بمبے کلاتھ ہائوس، بمبے میوزک ہائوس، جالندھر موتی چور، کئی چھوٹے بڑے چائے خانے اور ہوٹل تھے جہاں انڈین اور پاکستانی گانوں کے ریکارڈ گراموفون اور ریڈیو پر لوگ سنا کرتے تھے۔ انارکلی کا بازار کیا بازار تھا۔ بقول شیخ علائو الدین کبھی دو کاریں اکٹھی ایک ساتھ گزرا کرتی تھیں۔ ریڈیو سیلون اور آل انڈیا ریڈیو سے محمد رفیع کے کیا خوبصورت گیت نشر ہوا کرتے تھے اور رات کے سناٹے میں دور سے ان گانوں کی آوازیں کیا سماں باندھتی تھیں۔ ان گانوں کی آواز پورے انارکلی بازار میں سنی جاتی تھی۔ کبھی ہم نے بھی انارکلی میں موٹر کار چلائی تھی اب تو پیدل گزرنا بھی محال ہے۔انارکلی کےآخر میں لوہاری کے پاس کھیرکی دوکان اور دو بک ا سٹال ہوا کرتے تھے۔کھیر کی دوکان اور پان گلی آج بھی موجود ہ ہےہم نے اس خوبصورت شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین