• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2ارب 20 کروڑ افراد بینائی کی خرابی یا اندھے پن کا شکار ہیں، مذکورہ رپورٹ کا زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان 220کروڑ میں سے 100کروڑ افراد کو اندھا ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اگر ان کا علاج مناسب اور بروقت ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہ کروڑوں انسان نگاہ کی خرابی، گلوکوما، موتیا اور مکمل اندھے پن کا شکار ہو گئے۔ انسان ہو یا کوئی بھی جاندار اس کے لئے آنکھ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس عضو کی افادیت صرف دیکھنے کی حد تک نہیں بلکہ اس کے آگے بھی اس کے متنوع اور رنگا رنگ کردار ہیں۔ شاعروں نے بھی آنکھوں اور ان کی خوبصورتی کو نئے نئے ڈھنگ سے باندھا ہے مثلاً ناصر کاظمی؎

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

آنکھوں کے اس دھندلے پن کو بینائی لوٹانے کے لئے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں حکومتی سطح پر بھی اور مختلف این جی اوز کے پلیٹ فارم سے بھی کام ہو رہا ہے۔ ایسی ہی ایک این جی او برطانیہ میں قائم ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ بھی ہے یہ ادارہ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب کی سربراہی اور ’’انجمن طلباء اسلام پاکستان‘‘ کے سابق صدر عبدالرزاق ساجد کی چیئرمین شپ میں گزشتہ تقریباً پندرہ سال سے یو کے، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، شام، یمن، صومالیہ، سوڈان اور دنیا کے دیگر بیشمار آفت زدہ علاقوں میں انسانی خدمت کے کئی ایک منصوبوں پر کام کر رہا ہے لیکن میں ذاتی طور پر ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے زیر انتظام آنکھوں کے علاج اور مفت ہونے والے آپریشنز کے منصوبوں کا مشاہدہ کر چکا ہوں اس لئے اپنی آنکھوں دیکھے اس کام کی گواہی دے سکتا ہوں کہ ابھی اسی سال اس تنظیم نے پاکستان میں ایک لاکھ نابینا افراد کے آپریشنز کئے اور ان کی بینائی واپس لانے میں اپنا انسانی فریضہ ادا کیا ، اگلے روز ایک میڈیا کانفرنس میں عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے کہ مزنگ روڈ لاہور پر اُن کا ادارہ آنکھوں کے علاج اور آپریشنز کے لئے ایک فری ہسپتال قائم کر چکا ہے جہاں غریب اور ضرورت مند لوگوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر دس افراد میں سے ایک فرد کمزور بینائی کا شکار اور 20لاکھ سے زیادہ افراد دونوں آنکھوں سے اندھے ہیں جو مہنگے علاج کی وجہ سے بینائی کی طرف نہیں جا سکتے لیکن اگر ایک چھوٹا سا آپریشن ہو جائے تو ان کی آنکھوں کی روشنی لوٹائی جا سکتی ہے لیکن افسوس کہ مناسب سہولیات اور وسائل کی کمی انہیں تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور رکھتی ہے، ایسے میں ’’سندس فائونڈیشن‘‘ لاہور، ’’ابراہیم آئی ہسپتال‘‘ کراچی، ’’احسان ویلفیئر آئی ہسپتال‘‘ لاہور، ’’پی او بی ٹرسٹ‘‘ پاکستان اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ نمایاں اور کلیدی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خدمت حلق کو انسانیت کی معراج سمجھ کر اپنا کام کر رہے ہیں، ’’اے ایم ڈبلیو ٹی‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کے مطابق لاہور میں ان کے نئے ہسپتال میں جدید ترین مشینری اور ماہر ترین ڈاکٹروں کی ٹیم مستحق مریضوں کے آپریشن سے پہلے ان کا بلڈ ٹیسٹ، ہیپاٹائٹس اور شوگر ٹیسٹ بھی بلا معاوضہ کرے گی ۔

دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں لاکھوں ’’این جی اوز‘‘ یا چیریٹیز کام کر رہی ہیں صرف برطانیہ میں ہی ایک لاکھ 66ہزار چیریٹیز موجود ہیں اور ان کا مجموعی سالانہ ٹرن اوور 48ارب پائونڈ ہے۔ چیریٹی کمیشن یو کے کے تحت چیک اینڈ بیلنس کا بھی ایک مربوط سسٹم قائم ہے، 150سال سے قائم ریڈ کراس سمیت برٹش ہارٹ فائونڈیشن، آکسفام، یونیسف جیسی بڑی چیریٹیز بھی دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں، مغربی حکومتیں انہیں ہر ممکن تعاون بھی فراہم کرتی ہیں اور ان کے خدمت انسانی کے کاموں کو خراج تحسین بھی پیش کرتی ہیں کیونکہ چیریٹیز ایک طرح سے حکومتوں کا ہاتھ بٹاتی بلکہ ان کا بوجھ کم کرتی ہیں اور ناداروں کا آسرا بھی بنتی ہیں، پاکستان میں بھی ڈیڑھ لاکھ کے قریب این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جو مختلف سیکٹرز میں کام کرتی ہیں حکومت کے لئے ضروری ہے کہ اس ضمن میں چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم بھی کڑا رکھے لیکن ان کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔ لاہور میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے زیر انتظام قائم ہونے والافری آئی ہسپتال یقیناً سراہے جانے والا ایک فلاحی کام ہے، اس لئے جہاں اس تنظیم کی انتظامیہ نے انسانی خدمت کی ایک شمع روشن کی ہے ہم اہل قلم بھی ان کی انسانی کوشش کو مہمیز دے کراپنی تحریر کے ذریعےاس کام میں شامل ہو سکتے ہیں، چنانچہ اسی سوچ کے تحت میں نے بھی اپنی آزادانہ رائے دی ہے کیونکہ میں اس تنظیم کے کام کا عینی شاہد ہوں۔ اہل ادب کی نظر میں آنکھ روح کا آئینہ ہوتی ہے اور اسے حواس انسانی کا سب سے معتبر ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے، انسان کے رد و قبول کے فیصلے میں آنکھ کا کردارسب سے بڑا اور اہم ہوتا ہے، انسانی اعمال و افعال کی ہر سطح پر آنکھ کی ہمہ گیر مرکزیت کے نقوش ثبت ہیں آنکھ باہمی ربط و سلسلہ کا نقش اول بھی ہے اور خاتم بھی، لہٰذا شعرا کے ہاں بھی آنکھوں کی اہمیت یوں دیکھئے کہ مولانا حسرت موہانی نے آنکھ اور چشم کے مابین ایک نیا حسی تشبیہی علاقہ دریافت کیا ہے یوں کہ؎

آنکھوں ہی میں کٹ گئی شب ہجر

رونے سے نہ آئی چشم تر باز

تازہ ترین