• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خفتگانِ سیاست میں علم گھٹ رہا ہے، دانش تھی نہیں، طمع ِدنیابڑھ چکی جبکہ حِرماں نصیب قوم کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ر ہزن ایک بار پھر سے راہبر بن کر اٹھ چکے ہیں۔ الیکشن کیا رنگ باندھتا ہے فی الحال توقائدین بذریعہ ٹی وی اشتہارات شگوفے کھلارہے ہیں،شگوفے نکال رہے ہیں۔حال ہی میں انور مقصود سے ایک سوال ہوا کہ ” الیکشن میں سیاستدانوں کو کیسے چنا جائے“ ترت جواب ملا ”جیسے اکبر اعظم نے انارکلی کو چنا تھا“۔سیاست کے میدان میں اتارے گئے قائدین بھی کیا عجائب المخلوقات ہیں۔ آغاز سیاست میں طفل ِمکتب، سمجھنے میں دشواری جبکہ پیریِ سیاست میں سننے سے فارغ۔دیدہ ور چاہیے تھا قسمت پھوٹی ندیدے حکمرانی کرتے پائے گئے۔ باب ُالعلم کرم اللہ وجہہ کیا فرما گئے ”علم “اور” دنیا “کی طلب خصلت بن جائے تو طالب تاحیات اس کی بھوک میں تڑپتا ہی دکھائی دے گا۔ جہاں طالبانِ علم زندگی کی آخری سانسوں تک علم کیلئے تڑپتے ہیں وہاں طالب ِدنیا مال ، جائیداد کے لیے ترستا ترستا جان جاں آفرین کے سپرد کرتاہے۔ جہالت قوم کے اجتماعی شعور کے اوپر سائے گھنے کر چکی جبکہ طالبانِ دنیا نے حکومت کو اپنے پنجہ استبداد میں دبوچ رکھا ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے حکمران طبقے کے اثاثے اور جائیدادکی ناپ تول کا تقابل آج ان کی پراپرٹی، فیکٹریوں، پلازہ اور انواع اقسام کے کاروباروں سے کریں۔ ایک نہ ختم ہونے والی بھوک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کی صداقت پہ مہرہی تو ثبت کر رہی ہے۔کئی ”علی بابے ہزاروں چوروں“ کے ساتھ ایک بار پھر وطن عزیز پرنئی نقب لگانے کے لیے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ ووٹ جھپٹنے کے لیے چھیناجھپٹی جاری ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں کی تشہیر سے سکتہ میں ہیں۔ ماضی کے اصل کرتوتوں اورجرائم سے صرفِ نظراور جعلی کارکردگی اجاگر کر کے نئی واقفیت عامہ تشکیل پا رہی ہے ۔ٹی وی اشتہار دیکھ کرسوال اٹھتا ہے کہ قائدین کی ایسی شاندار کارکردگی وطنِ عزیز کوپھربگاڑ کیوں گئی۔18 کروڑ لوگوں کی آنکھ سے اوجھل کیسے رہی کیا قوم اصحابِ کہف کی نیند سو رہی تھی اور سوتے سوتے ہی لاچاراور بے حال ہو گئی ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں 5 , 5 دفعہ حکمرانی کی باری لے چکے۔ بھوک، ننگ ، افلاس عفریت کی شکل اختیار کر چکا۔قوم مذہبی ، لسانی اور قومیتی طبقات میں مستقلاًبٹ چکی۔ آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور پاکستان کو اجاگر کرنالاینحل قدربن گیا ۔
قومی سیاست کے اجزاء کی ترکیب ہے ہی دلچسپ ۔ نظام کو ہتھیاؤ،حکومتی مشینری کو جام رکھو، انصاف، قانون، ترقیاتی پروگرام، حصولِ روزگار،تھانہ کچہری ،پٹواری وغیرہ وغیرہ خواص کے لیے مختص کر دواور عوام الناس کوایسے منتخب ِروزگار(Electables) کے رحم و کرم پرچھوڑ دو تاکہ وہ ایسوں ہی کو منتخب کرنے پر مجبور رہیں اوریہ نابغے عوام الناس کی جائز سہولتیں کمالِ بے اعتنائی سے ان پر نچھاور کرکے ووٹ وصول کرنے کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھیں ۔آئین، قانون ،نظام تو غریب کی جورو بن چکا۔اللے تللے ، خردبرد اور نامعقولات کایہ لامتناہی سلسلہ اقتدار کے آخری دن تک آئینِ قائدین کہلایا۔ اس کیفیت میں اقتدار کی شام یوں آتی ہے کہ آخری دن فائلوں پرہزاروں دستخطوں کی یلغار ایسے کہ سپرکمپیوٹر کی سپیڈ مقابلہ نہ کر پائے ۔دمِ رخصت ِاقتدار ایک ہی خواہش کہ تاریک راتوں میں مارے لوگ اگلی باری لگنے تک جھانسے میں رہیں۔ایجنڈہ ہردم ایک ہی ”لٹوتے پُھٹو“ ۔ ملک کی چولیں ہلاکرہمارے قائدین دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اورعوام الناس دنیا کے غریب ترین طبقے میں۔پیرومرشد کی آہ و بکا، منظرحرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں۔
قومی لطیفہ ملاحظہ فرمائیں قائد محترم پانچ ادوار کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے اپنا سب سے بڑاکارنامہ ایٹمی دھماکہ گنواتے ہیں اور اسی سانس میں ایٹمی پروگرام پر حق ِملکیت بھی جتاتے ہیں۔ حضور یہ قولِ زریں بھی قوم کو ازبر ہے کہ”میاں صاحب اگر آپ نے جوابی دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی“۔ڈاکٹر قدیر فرماتے ہیں کہ” نگاہ ِ مردجری “نے دھماکوں پر مجبور کیا۔”بات توسچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی“ ۔تقریریں سنیں تولگتا ہے ایٹم بم ڈاکٹر قدیر کی نہیں ڈاکٹر نواز شریف کی محنت ِشاقہ ہے۔ قائد ِ محترم عرض کیا ہے یہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ ڈاکٹرقدیر ، بھٹوصاحب، جنرل ضیاء الحق اور اسحاق خان کے ساتھ پانچواں نام شامل کرناایسے ہی جیسے پاک شفاف دودھ میں مینگنیں ڈال دی جائیں اور یہ کام چاروں بیچاروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر نشانِ عبرت بنادیاگیا ۔ جنرل ضیاء الحق کو آسمان سے زمین کی طرف آنے کا موقع ہی نہ دیا۔ غلام اسحاق قائد محترم کے ہاتھوں زخمی ہوئے جبکہ ڈاکٹر قدیر پچھلے 35 سال سے استعماری بھیڑیوں سے بچتے پھرتے ہیں۔
پچھلے کالم میں میں نے ڈاکٹر شیر افگن کے افکارِ عالیہ (مرحوم 16 سال تک گاہے بگاہے ایسے خیالات سے مستفید فرماتے رہے)نقل کیے تھے۔کچھ دوستوں کے کالموں سے یوں لگا جیسے وہ الفاظ میرے ہوں۔میرے اختلافات تو فقط ان سیاسی فیصلوں سے ہیں جس بناتحریک ِ انصاف کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا۔تحریک ِ انصاف میانوالی ضلع میں ازخودگلے میں کئی چھپکلیاں پھنسا بیٹھی ہے۔ امجد خان کی ٹکٹ نے تو سکتے میں ڈال دیا۔ واحد میرٹ ڈاکٹر شیر افگن کا بیٹا ہونا ٹھہرا۔ڈاکٹر شیر افگن 30سال کے اندر ککھ پتی سے کروڑوں کے اثاثے چھوڑ کر اللہ کوپیارے ہوئے۔
بدقسمت NA-72 میںPTI کا ہما جس سر پر بٹھایا گیاوہ بیچارہ زندگی بھر ایک منٹ سے زیادہ بولنے کی استطاعت سے محروم ۔ تعلیم میٹر ک، انتہائی تکلیف دہ کئی مقدمات میں ملزم رہا، بحیثیت نائب ناظم کرپشن کے سنگین الزامات ۔ایسے شخص کو تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر بنانا انصاف کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہی تو ہے۔میری اس تکرار سے یہ تاثر لینے کی کوشش کی جارہی ہے گویا میں تبدیلی یا قائد ِ تحریک کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو چکا ہوں۔ مجھے اپنامافی الضمیر بیان کرنا آتا ہے۔ میرے حوالے سے وہ بات سمجھنے سمجھانے کی کوشش نہ کریں جس سے فی الحال مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ڈاکٹر شیرافگن کے فرمودات تک ہی رہنا پڑے گااور یہ حقیقت بھی تکلیف دے رہی ہے کہ میانوالی میں نواب ملک امیر محمد خان، ڈاکٹر شیر افگن اور عائلہ بی بی کے ساتھ عمران کا چارٹ جچا نہیں۔ بھلا عمران خان کی ان تین شخصیات کے ساتھ کیا قدر مشتر ک ہوسکتی تھی۔ ایسے پوسٹر عمران خان کی تضحیک کا ہی تو پہلو رکھتے ہیں ۔ذاتی طور پرمیں نے عمران خان سے زیادہ دیانتدارشخص زندگی کے اس طویل سفر میں کسی کو نہیں پایا۔ وہ اخلاص کے ساتھ اس ملک میں تبدیلی کا پیامبر بن کر آیاہے ۔
سیاسی فیصلوں کی ماہیت پر بحث و تنقید جاری رہے گی۔ تحریک انصاف میں انتہائی بدنام اور کرپٹ عناصر کا دخول طبیعت کو مکدر کرتا ہی رہے گاچاہے علیم خان ہو ، عائلہ ملک، امجد خان یا اس قبیل کا کوئی بھی۔ میری بلا سے۔بار بار اعلان کرتا ہوں سیاسی سرکس کے بددیانت قومی سیاسی جوکروں میں عمران خان ایک نعمت غیر مترقبہ ہے اور اس کا وجودقوم کے لیے ڈھارس بھی اور امید کی کرن بھی۔ قوم نے بھی امیدوں کا محور عمران خان کی ذات تک محدود کر لیا ہے ۔قوم کی وارفتگی دیدنی ہے ۔ اگر خدانخواستہ آنے والے انتخابات میں ناکامی ہوئی تو 100 فیصد جمع ایک فیصد ذمہ دارتحریک انصاف بقلم خود ہو گی۔قوم تو سب کچھ نچھاور کرچکی۔
11/ مئی کو قائدین کا خیال ہے ان کا داؤ لگ جائے گا۔حضور کوئی داؤ پیچ لگنے کا نہیں۔ سٹیٹ بینک کی حالیہ 5سالہ رپورٹ کے مطابق مرکز اور صوبوں میں شرح نمو تاریخی انحطاط کا شکار رہی۔کیا معاشی دھماکے کیے آپ لوگوں نے ؟ اقتدار کی سیڑھیاں باری کے حکمرانوں کے پیروں کے نیچے سے کھسک رہی ہیں۔ 70 فیصد ووٹرز 40 سال سے کم عمر کے ہیں ان میں سے کثیر تعداد پہلی دفعہ ووٹ ڈالنے جا رہی ہے ۔
اس سے قبل جتنے انتخابات ہوئے 40 سال سے زائد العمر لوگ بہ امر مجبوری( ممبروں سے کام شام کے لیے) ووٹ کابھرپور استعمال کرتے رہے ہیں ۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ40 سال سے کم عمر کا جذب اندرون اور تڑپ دیدنی ہے ۔ووٹ ڈالنے کی الٹی گنتی شروع ہے۔ نوجوانوں کی بے چینی اورآرزوؤں کی جولانیاں عروج پر ہیں۔ والدین کے اوپر دباؤ ہے۔ بزرگوں کو پابند کیا جا رہا ہے۔نوجوان جانتے ہیں کہ قائدین سوداگر ہیں، بیوپاری ہیں۔مال بیچنا بھی جانتے ہیں اورخریدنے میں بھی ہوشیار۔ابھی تازہ تازہ لیپ ٹاپ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، جنگلہ بس سروس وغیرہ کا ”وپار“ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔البتہ قائدین ایک چیز فراموش کر گئے کہ نوجوان بپھر چکے ہیں اٹھائی گیروں کے سروے چالاکیاں اور عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے جت چکے ہیں۔ طالبانِ دنیا کی بھوک تو ختم ہو گی نہیں۔ کیاحرماں نصیب قوم حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ”کافی کب کافی ہوگا“؟ماضی میں آپ نے وطن ِعزیز کو کئی سو چاند لگائے۔ آپ ہی نے تو پاکستان کو بدلا ہے،اس حال تک پہنچایاہے۔ اب اور کیا بدلیں گے۔حضور بس نکل گئی ۔ ٹرین چُھوٹ چکی۔حِرماں نصیب قوم کو بخش دیں۔
تازہ ترین