• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز پاکستان ملٹری اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو درپیش حالات کے حوالے سے نہایت فکر انگیز اظہارِ خیال کیا۔ اُنہوں نے جہاں منتخب حکومت کے ساتھ آئین کے مطابق تعاون کو فوج کی ذمہ داری قرار دیا اور کامیاب کیڈٹس کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ہمارے دشمن ہائبرڈ جنگ کے ذریعے یہ تاثر عام کرنا چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں کچھ اچھا نہیں ہو سکتا تاکہ ہم مایوسی کا شکار ہو کر بہتری کی خاطر جدوجہد کا راستہ چھوڑ بیٹھیں‘ وہیں یہ نہایت ضروری وضاحت بھی کی کہ مثبت تنقید ہائبرڈ جنگ نہیں بلکہ اصلاح و بہتری کے لئے ضروری ہے، لہٰذا اِس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ آرمی چیف نے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں فوج کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کی کہ جب بھی قوم کو ہماری ضرورت پڑی‘ ہم نے بہترین نتائج کے لئے خود کو پیش کر دیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا کووڈ کے خلاف حکمت عملی، ٹڈی دَل کا قلع قمع کرنا ہو یا سیلابی صورتحال کا مقابلہ، پاکستانی قوم نے اپنی اہلیت کو اپنی کارکردگی سے ثابت کیا اور پاک فوج کو اِن تمام قومی کوششوں میں شامل ہونے پر فخر ہے۔ آرمی چیف حال ہی میں پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات میں بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں، موجودہ منتخب حکومت کے ساتھ اِس کا تعاون غیرسیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کی حد تک ہے اور کل کوئی دوسری منتخب حکومت آجائے تو فوج اِن معاملات میں اُس کے ساتھ بھی اِسی طرح تعاون کرے گی کیونکہ یہ اُس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ بلاشبہ کسی بھی جمہوری ملک میں فوج کا کردار یہی ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہئے اور یہ امر خوش آئند ہے کہ ہماری عسکری قیادت کی جانب سے آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے کے عزم کا دوٹوک الفاظ میں اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ ہمارے تمام مسائل کے حل کا راستہ ہی یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔ آرمی چیف نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے خطاب میں قوم کو دشمن کے عزائم اور سرگرمیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اِس امر کی نشاندہی بھی کی کہ اب جنگ محض میدان میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اِس کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے جس میں دہشت گردی، تخریب کاری اور میڈیا کے جدید ذرائع کو بڑے پیمانے پر استعمال کرکے نفسیاتی طور پر کسی قوم کو اپنے مستقبل سے مایوس کرنے کے طریقے شامل ہیں اور پاکستان پر بھی ہائبرڈ کہلانے والی یہ جنگ پوری شدت سے مسلط کرنے کوششیں جاری ہیں جنھیں ناکام بنانے کے لئے پوری قوم کا متحد ہونا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں اُنہوں نے اِس نہایت قیمتی نکتے کا اظہار بھی کیا کہ مثبت تنقید کو ہائبرڈ جنگ نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ آرمی چیف نے نہایت پُرزور انداز میں اور غیرمبہم طور پر اپنا مافی الضمیر اِن الفاظ میں واضح کیا کہ ’’ہائبرڈ وار کو مثبت تنقید سے نہ ملائیں، ایسی تنقید جس کا بہت شور اور چرچا ہو، ممکن ہے کہ اعتماد، محبت اور حب الوطنی کا نتیجہ ہو لہٰذا اس پر توجہ دی جانی چاہئے‘‘۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اپنے لوگوں کو ضرور سننا چاہئے اور جہاں ضرورت ہو وہاں اصلاح کرنی چاہئے۔ تنقید کی یہ آوازیں اِس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیت قوم زندہ ہیں اور درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔ اُن کے خطاب کے یہ الفاظ بھی ہمارے معاملات کی درستگی کی راہ متعین کرتے ہیں کہ ’’پاکستان میں کوئی بھی کسی اور کیلئے جوابدہ نہیں، آئین پاکستان اور قومی مفادات ہمارے رہنما اور دستوری روایات ہماری اصل طاقت ہیں‘‘۔ خدا کرے کہ ہماری قومی پالیسیاں اِنہی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائیں تاکہ ہم جلداز جلد اپنی مشکلات پر قابو پاکر استحکام و ترقی کی راہ پر تیزرفتاری سے پیش قدمی کرسکیں۔

تازہ ترین